احبار 7 باب
آپ کلام مقدس میں سے احبار کے ساتویں باب
کو مکمل خود پڑھیں۔
جب آپ احبار کے ابواب کو پڑھیں تو دھیان دیں کہ کہاں یہ لکھا ہے "ہارون اور اسکے بیٹوں کو یوں
حکم دے ۔۔۔” اور کہاں "بنی اسرائیل سے کہہ۔۔۔” لکھا ہے۔ عموماً لوگ
کتاب مقدس کو پڑھتے ہوئے ان بظاہر چھوٹی
چھوٹی باتوں پر غور نہیں کرتے۔ چند سال پہلے اگر
کوئی میرے سے پولس رسول کے خطوط کے بارے میں بات کرتا تو مجھے انکی جو سمجھ بوجھ
تھی وہ مسیحی تعلیم کی بنیاد پر تھی مگر جب سے میں نے ربینیکل (Rabbinical) یعنی ربیوں کی تعلیم کے مطابق پولس رسول کے
خطوط پر غور کرنا شروع کیا تو تب احساس ہوا کہ پولس رسول کے لکھنے کا انداز ربیوں
کی تعلیم کے انداز سے جدا نہ تھا۔ شروع
میں میں جب ربی نیل سے بات کرتی تھی تو
اکثر ان سے بحث میں پڑ جاتی تھی وہ
مجھے اکثر کہتے تھے کہ میں یہودیوں اور انکی تعلیم کو غلط نہ سمجھوں کیونکہ
اگر کہیں غلطی ہے تو وہ میری سمجھ میں ہے۔
انھوں نے صحیح کہا تھا۔ میں نے انکی بات کو سن کر کلام کی ہر بات کو
یہودیوں کے پہلو کے مطابق دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ یشوعا اور انکے تمام شاگرد
بمعہ پولس رسول کے، یہودی ہی تھے۔مثال کے طور پر پولس رسول نے گلتیوں 2:20 میں
کہا؛
میں مسیح کے
ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہےاور میں جو
اب جسم میں زندگی گذارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے
مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔
احبار 1:2 میں اردو اور عبرانی میں یوں لکھا ہے؛
بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب
تم میں سے کوئی خُداوند کے لئے چڑھاوا چڑھا ئے تو تم چوپاں یعنی گائے بیل اور بھیڑ
بکری کا چڑھاوا چڑھانا ۔
דַּבֵּ֞ר אֶל־בְּנֵ֤י יִשְׂרָאֵל֙
וְאָמַרְתָּ֣ אֲלֵהֶ֔ם אָדָ֗ם כִּֽי־יַקְרִ֥יב מִכֶּ֛ם קָרְבָּ֖ן לַֽיהוָ֑ה מִן־הַבְּהֵמָ֗ה
מִן־הַבָּקָר֙ וּמִן־הַצֹּ֔אן תַּקְרִ֖יבוּ אֶת־קָרְבַּנְכֶֽם
اردو ترجمے میں ہمیں اس آیت میں وہ لکھا نظر نہیں آتا جیسے عبرانی میں لکھا ہے ۔ אָדָ֗ם
כִּֽי־יַקְרִ֥יב מִכֶּ֛ם، جیسے عبرانی کلام میں لکھا ہے وہ کچھ ایسے بنے گا ” تم میں سے کوئی (اپنا) چڑھاوا چڑھائے”۔ یشوعا کے مصلوب
ہونے کو ہم یشوعا کی قربانی پکارتے ہیں۔ قربانی کے بارے میں میں پہلے بھی کافی
دفعہ کہہ چکی ہوں کہ قربانی کا مقصد خداوند کے قریب آنا تھا۔ میں یہ
بھی بتا چکی ہوں کہ پہلی تین قربانیاں جن کے بارے میں ہم نے پڑھا تھا وہ لازمی
قربانیاں نہیں تھیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان قربانیوں کے بغیر خداوند کے قریب آنا
اور خداوند کو پسند آنا نا ممکن ہے۔ خطا
اور جُرم کی قربانی لازمی ہے۔ سوختنی، خطا اور سلامتی کی قربانی کا ذکر ہمیں اعمال کی کتاب
میں بھی ملتا ہے۔
اگر قربانیاں واقعی میں ہی منسوخ ہوگئی
تھیں تو پولس رسول جانتے بوجھتے کیوں ان
کا حصہ بننا چاہتے تھے؟ انکا مسیح کے ساتھ مصلوب ہونے سے کیا مراد تھی؟
سلامتی کی قربانی کے بارے میں اکثر یہ
سکھایا جاتا ہے کہ یہ قربانی دنیا میں امن
کو پھیلانے کے لئے ہے مگر اگر آپ احبار کے
7 باب کو غور سے پڑھیں تو "شکرانہ،
منت یا رضا کا ہدیہ” کے الفاظ لکھے نظر آئیں گے۔ اگر شکرانہ کا ہدیہ
ہے تو اس کو قربانی چڑھانے کے دن ہی کھا لئے جانے کا حکم ملتا ہے مگر منت اور رضا
کی قربانی کو پہلے اور دوسرے دن تو کھایا جا سکتا ہے مگر تیسرے دن نہیں۔ اگر کچھ باقی رہ جائے تو اسے تیسرے دن مکمل طور
پر جلا دینے کا حکم ہے۔ وجہ؟ اگر کوئی اس میں سے کچھ کھائے تو وہ نہ تو منظور
ہوگا اور نہ ہی اسکا ثواب ملے گا بلکہ
الٹا کھانے والے کے لئے گناہ بن جائے گا۔ اور ایک خاص بات (احبار 7:20)؛
لیکن جو شخص
نجاست کی حالت میں خداوند کی سلامتی کے ذبیحہ کا
گوشت کھائے وہ اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے۔
اس آیت میں جہاں اردو میں لفظ نجاست لکھا
ہوا ہے وہ عبرانی میں "וטמאתו VaTum’ato, وا-تُماتو” ہے جس کے اصل میں معنی "اور نجاستوں” بنے گا یعنی جمع۔ اردو کا ترجمہ
غلط نہیں میں اپنی بات سمجھانے کے لئے ایسا بتا رہی ہوں۔ عبرانی میں لفظ "טמא، تمی،tami” یعنی نجاست سے مراد زیادہ تر رسمی نجاست بنتا ہے۔ ہم ان کے بارے میں آگے
پڑھیں گے۔ مکاشفہ 21:27 میں یوں لکھا ہے؛
اور اس میں کوئی
ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ
ہوگا مگر وہی جنکے نام برہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں۔
یہ لفظ جو کہ یونانی زبان میں ناپاکی سے جُڑا ہے، اسی قسم کے لفظ کا استعمال مرقس7:2 اور 5 میں بھی استعمال ہوا ہے
جہاں شاگردوں کا ہاتھ دھوئے بغیر کھانے کا ذکر ہے۔ مکاشفہ 21:27 میں درج ناپاک کے لفظ کا استعمال
عبرانیوں 10:29 میں بھی ہوا ہے یہاں یوں لکھا ہے؛
تو خیال کرو کہ
وہ شخص کس قدر زیادہ سزا کے لائق ٹھہریگا جس نے خدا کے بیٹے کو پامال کیا اور عہد
کے خون کو جس سے وہ پاک ہوا تھا ناپاک جانا اور فضل کے روح کو بیعزت کیا۔
ہمارے مسیحی یشوعا کے بہائے ہوئے خون کو
تو پاک مانتے ہیں مگر کبھی انھوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اپنے آپ کو نجاست
سے کیسے پاک کرنا ہے۔ آپ کہیں گے کہ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کے خون نے ہمیں پاک
کیا ہے (1یوحنا1:7)۔ اس آیت میں بات گناہ کی ہو رہی ہے نجاست کی نہیں۔ ان آیات میں
جس نجاست کی بات ہو رہی ہے وہ رسمی پاکیزگی سے جڑی ہیں۔گو کہ اس کے گہرے مطالعے میں
جایا جا سکتا ہے جس کو رسولوں نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے مگر ہر ایک چیز کو خون پاک نہیں کرتا۔ اسکو ہم آگے
اپنے مطالعے میں دیکھیں گے۔ پانی کو رسمی
پاکیزگی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
مزید بات اس مطالعے میں نہیں کرونگی ۔ افسوس ہمارے مسیحی یہ نہیں جانتے کہ
کیسے وہ اپنی نجاست میں یشوعا کے پاک عہد
کے خون کو ناپاک کر رہے ہیں۔ 1 کرنتھیوں10:21
میں پولس رسول نے کہا؛
تم
خداوند کے پیالے اور شیاطین کے پیالے دونوں میں سے نہیں پی سکتے۔ خداوند کے
دسترخوان اور شیاطین کے دسترخوان دونوں میں شریک نہیں ہوسکتے۔
آپ کو یاد ہے میں نے مذبح گاہ کے بارے
میں میں نے کیا بیان کیا تھا کہ وہ دسترخوان کی مانند ہے۔ نئے عہد
نامے کے تمام خطوط پرانے عہد نامے کی باتوں کو سمجھانے کے لئے لکھے گئے تھے۔
سلامتی کی قربانی منت یا رضا کی قربانی بھی تھی۔
میں نے بتایا تھا کہ پولس رسول نے بھی ان قربانیوں میں شریک ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔ اعمال کی
کتاب میں ہمیں ذکر ملتا ہے کہ بزرگوں کے مطابق پولس رسول درستی سے شریعت کی باتوں
پر چلتے تھے۔ میرے ساتھ اعمال 21:23 سے 26
آیات کو دیکھیں؛
اسلئے جو ہم تجھ
سے کہتے ہیں وہ کر۔ ہمارے ہاں چار آدمی ایسے ہیں جنہوں نے منت مانی ہے۔ انہیں لیکر
اپنے آپ کو انکے ساتھ پاک کر اور انکی طرف سے کچھ خرچ کر تاکہ وہ سر منڈائیں تو
سب جان لینگے کہ جو باتیں انہیں تیرے بارے
میں سکھائی گئی ہیں انکی کچھ اصل نہیں بلکہ تو خود بھی شریعت پر عمل کر کے دُرستی
سے چلتا ہے۔ مگر غیر قوموں میں سے جو ایمان لائے انکی بابت ہم نے یہ فیصلہ کر
کے لکھا تھا کہ وہ صرف بُتوں کی قربانی کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے
جانوروں اور حرامکاری سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ اس پر پولس اُن آدمیوں کو لے کر
اور دوسرے دن اپنے آپ کو انکے ساتھ پاک کر کے ہیکل میں داخل ہوا اور خبر دی کہ جب تک ہم میں سے ہر
ایک کی نذر نہ چڑھائی جائے تقدس کے دن پورے کرینگے۔
غور کریں کہ بزرگ، پولس رسول کو اپنے آپ کو پاک کرنے کا کہہ رہے
ہیں۔ پولس رسول اگر صرف روحانی پاکیزگی کی تعلیم دیتے آئے تھے تو پھر وہ کیوں رسمی
طور پر
بھی پاک ہوکر ہیکل کو گئے؟ وہ کیوں یہودیوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے
تھے کہ پولس رسول خود بھی شریعت پر عمل کر کے درستی سے چلتے ہیں؟ وہ کیوں کہنا چاہ رہے تھے کہ انھوں نے خالی غیر
قوموں کے لئے کیا حکم دیا تھا؟ اس منت اور سر کے منڈانے کے بارے میں حکم ہمیں گنتی 6 باب میں ملتا ہے اسکا تفصیل میں مطالعہ ہم گنتی کی کتاب میں ہی کریں گے مگر اگر آپ اس باب
کو پڑھیں تو وہاں خطا کی قربانی ، سوختنی
قربانی ، جُرم کی قربانی ، نذر کی قربانی
اور پھر سلامتی کی قربانی کا حوالہ نظر آئے گا۔
میرا نہیں خیال کہ پولس رسول اور تمام بزرگ غیر قوموں کو فرق اور یہودیوں
کو فرق تعلیم دے رہے تھے۔ اعمال 18:18 میں ہمیں پولس رسول کا بھی منت ماننے کا ذکر ملتا ہے۔
میں نے ابھی تک احبار کی کتاب میں درج
قربانیوں کا صحیح مطالعہ نہیں کروایا کیونکہ ہمارے لوگوں کو نہ تو انکی کوئی اہمیت
نظر آتی ہے اور نہ ہی سمجھ۔ پرانے عہد نامے کی قربانیوں کو یشوعا
کی قربانی سے ملانا چھوڑ دیں کیونکہ یشوعا کی دی ہوئی قربانی ویسی نہیں تھی جیسے
کہ ان پاک جانوروں کی تھی بلکہ ان تمام سے
بہت بڑھ کر تھی اور اسی بات کو ہمیں عبرانیوں 7 باب میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے
۔ مگر جس طرح سے لوگ اسے سمجھتے ہیں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی
گمراہ کرتے ہیں۔
میں اپنے اس مطالعے کو فی الحال یہیں ختم
کرتی ہوں خداوند نے چاہا تو جیسے جیسے آپ بنیادی باتوں کو سمجھتے جائیں گے تو آپ
کو نئے عہد نامے کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ خداوند خدا میرے اور آپ سے اس
روحانی نجاست کو ختم کریں جو ہمیں رسمی نجاست سے پاک ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین