پرشاہ: کی –تا-وہ، כִּי-תָבוֹא ,Ki-Tavo
کی-تیت-زے کے بعد کے پرشاہ کا نام "کی-تا-وہ” ہے جسکے معنی ہیں ” اور جب تم داخل ہو۔ ” آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے؛
توراہ – استثنا 26:1 سے 29:8
ہاف تاراہ – یسعیاہ 60:1 سے 22
بریت خداشاہ – افسیوں 1:3 سے 6 اور مکاشفہ 21:10 سے 27 کچھ میسیانک یہو دی لوقا 24:44 سے 53 آیات پڑھتے ہیں۔
آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھ کر میری ان باتوں پر اپنی روحانی خوارک کے لئے ضرور غور کریں۔
- ہمارے توراہ کا حوالہ ان آیات سے شروع ہوتا کہ جب تو اس ملک میں جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو میراث کے طور پر دیتا ہے، پہنچے اور اس پر قبضہ کرکے اس میں بس جائے تو اس زمین میں جو قسم قسم کی چیزیں تو لگائے ان سب کے پہلے پھل کو ایک ٹوکرے میں رکھ کر اس جگہ لے جانا جسے خداوند تیرا خدا اپنے نام کے مسکن کے لئے چنے۔ ۔۔۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق جب وہ لوگ اپنے کھیت/تاکستان میں پہلے پھل کو دیکھتے تھے تو وہ اسکے گرد دھاگہ باندھ دیتے تھے اور اسکو شروع میں ہی خدا کے لئے الگ کر دیتے تھے اور جب پھل پکتا تھا تو وہ اس میں سے بہترین پھل کو ٹوکرے میں ڈالتے تھے ۔ ہم نے اپنے شروع کے کچھ پرشاہ میں پڑھا تھا کہ ہم یہاں پر مسافر ہیں۔ زمین خدا کی ہے وہ ہمیں اپنی میراث میں سے حصہ دیتے ہیں۔ وہی ہیں جنھوں نے اپنے مسکن کی جگہ کو چنا ہے۔ چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ مگر خداوند نے یروشلیم کو اپنے اس مقصد کے لئے چنا ہے۔ اگر آپ نے کبھی اپنا علاقہ بدلا ہے یا پھر نئے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اسے خداوند کے لئے مخصوص کیا ہے؟(استثنا 20:5) تمام یہودی اور میسیانک یہودی خداوند کی طرف سے ملی ہوئی میراث کو خداوند کے نام میں مخصوص کرتے ہیں۔ کیا مسیحیوں کو ایسا کرنا چاہیے یا کہ وہ اب اس حکم کے پابند نہیں ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ ہم میں سے زیادہ تر کا پیشہ اب کھیتی باڑی یا گلہ کی نگہبانی نہیں ہے مگر پھر بھی سوچیئے کہ اگر ہمیں خداوند کو پہلے پھل کا حصہ دینا ہو تو ہم کیسے اس حکم پر چل سکتے ہیں؟
- مسیحی لوگ بہت سی ان دعاؤں کواپنی عبادت گاہوں میں ہر ہفتے دھراتے ہیں جو کہ دعائیہ کتابوں میں درج ہیں مگر ان دعاوں کو نہیں بولتے جنکو بولنے کا حکم خدا نے دیا تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ مسیحی سوچتے ہیں کہ یہ تمام احکامات اور آئین خدا نے بنی اسرائیل کو دئے تھے۔ اگر تمام احکامات اور آئین بنی اسرائیل کے تو پھر تو ان سے جڑی ہوئی برکتیں بھی انکی ہیں۔ خداوند کی مقدس قوم کا حصہ کیسے بننا ہے اسکے متعلق تمام آئین اور احکامات توریت میں درج ہیں۔ کیا آپ یشوعا کے بدن کا حصہ بنے ہیں؟ یشوعا یہودی تھے اگر آپ اسکا حصہ بنے ہیں تو پھر کیسے ہے کہ آپ یہودیت کا حصہ نہیں ہیں؟
- غور کریں کہ کن احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں خدا وند نے لعنتوں کا کہا ہے اور کن احکامات کی فرمانبرداری پر برکتوں کا؟ کیا وہ تمام کے تمام احکامات شریعت کا حصہ نہیں ہیں؟ استثنا 28:63 پر غور کریں۔ وہ جو کہ سمجھتے ہیں کہ پرانے عہد نامے کے خدا سے نئے عہد نامے کا خدا فرق ہے ، کیا یہ خداوند کے ہمیشہ یکساں ہونے کے بیان کی تردید نہیں؟ کیا آپ اس طرح سے سوچ کر خداوند کو جھوٹا نہیں کہہ رہے؟ کیا خداوند نئے عہد نامے میں بدل گیا ہے؟
- ہاف تاراہ کا حوالہ پڑھیں۔ کون دنیا کا نور ہے اور کون ہے جو کہ اپنے لوگوں کو نجات دیتا ہے اور کون ہے جس نے میرا اور آپ کا فدیہ دیا ہے؟ ہاف تاراہ کا حوالہ نئے یروشلیم یعنی خداوند کے شہر کو بیان کر تا ہے، بنی اسرائیل قوم تمام قوموں میں سب سے چھوٹی قوم تھی مگر وقت جلد آ رہا ہے کہ سب سے حقیر قوم ایک زبردست قوم بن جائے گی۔ کیا آپ اسکی قوم کا حصہ ہیں؟
- ہمارے بریت خداشاہ کے مکاشفہ کے حوالے میں بھی مقدس یروشلیم شہر کا ذکر ہے۔ لوقا کا حوالہ بیان کرتا ہے کہ یشوعا نے اپنے شاگردوں کا ذہن کھولا تاکہ کتاب مقدس کو سمجھیں۔ میں نے اپنے بہت سے آرٹیکلز میں ذکر کیا ہے کہ یشوعا کے شاگردوں کے زمانے میں جو کلام انکو دستیاب تھا وہ پرانا عہد نامہ یعنی تناخ (موسیٰ کی توریت، نبیوں کے صحیفے اور زبور ) تھا۔ کیونکر ہے کہ یشوعا کے شاگرد اگر یشوعا کو سمجھ پائے تھے تو وہ پرانے عہد نامے کی بنیاد پرایسا کر پائے مگر ہمارے مسیحی یشوعا کو صرف نئے عہد نامے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ میرے یہ کہنے کا مقصد نہیں کہ نئے عہد نامے کی اب ضرورت نہیں۔ نیا عہد نامہ مسیحیوں کے لئے ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر جتنا زیادہ نیا عہد نامہ ضروری ہے اتنا ہی پرانا عہد نامہ ضرور ی ہے۔ کیا آپ نے کبھی یشوعا سے کہا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی طرح آپ کا بھی ذہن کھولیں تاکہ آپ کلام کی باتوں کو سمجھ پائیں؟
میری خدا سے آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ اگر آپ دل و جان سے اسے تلاش کر رہے ہیں تو وہی آپ کے ذہنوں کو کھولیں تاکہ آپ اسکو سمجھ پائیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
موضوع: لعنتیں (آڈیو میسج 2018)
(Topic: Curses (Audio Message 2018