پرشاہ: شی-لاخ- لیخا، שְׁלַח-לְךָ، Sh’Lach L’cha
پرشاہ بیحالوتخا کے بعد کے پرشاہ کا نام شیلاخ لیخا ہے جسکے معنی ہیں "اپنے لیے بھیجو "یا پھر” تم بھیجو”۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔ ہمیشہ کی طرح میں کچھ باتیں غور و فکر کے لئے نیچے درج کر رہی ہوں۔
توراہ- گنتی 13:1 سے 15:41
ہاف تاراہ- یشوع 2:1 سے 24
بریت خداشاہ- عبرانیوں 3:7 سے 4:11
- توراہ کے حوالے میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند نے موسیٰ نبی کو کہا کہ وہ ہر قبیلے سے ایک آدمی کو بھیجیں تاکہ وہ کنعان کا حال دریافت کر سکیں۔ خدا وندنے خود نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے کہنے پر ایسا کرنے کو کہا تھا(استثنا 1:21 سے 23 )۔ لاوی کے قبیلے میں سے کوئی آدمی نہیں چنا گیا کہ باقیوں کے ساتھ جا کر ملک کنعان کی سرزمین کا حال دریافت کر سکتے۔ کیا بنی اسرائیل نے صحیح قدم اٹھایا تھا؟ بنی اسرائیلوں نے جنگجو کنعانیوں کا سنا تھا کہ وہ طاقتور ہیں تبھی وہ کنعان میں داخل ہونے سے پہلے زمین کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ موسیٰ نبی نے انھیں چھ باتوں کا جائزہ لینے کو کہا (گنتی 13:18 سے 20)۔ انھیں اپنی آنکھوں سے بھی یقین کرنا تھا کہ واقعی میں وہ ویسی ہی زرخیز زمین ہے جسکے بارے میں خداوند نے کہا تھا۔ کیاآپ خدا پر بن دیکھے یقین کرتے ہیں یا کہ پھر تب تک یقین نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ خود اپنی انکھوں سے نہ دیکھ لیں؟
- جو آدمی کنعان کی سرزمین میں داخل ہوئے تھے انھوں نے وہاں پر عناق کو دیکھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ عناق کون ہیں جن سے بنی اسرائیل اتنا ڈر گئے تھے؟ (گنتی 13:33) کن کن قوموں کے لئے خدا وند نے کہا تھا کہ وہ انھیں ملک کنعان سے نکال ڈالیں گے ؟ آج وہاں کون کون سی قومیں موجود ہیں؟
- یشوع کا اصل نام ہوسیع تھا جسکو موسیٰ نبی نے بدل کر یشوع رکھ دیا۔ بارہ آدمیوں سے صرف یشوع اور کالب تھے جو کہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے کہ اگر خداوند راضی رہے تو وہ انکو اس ملک میں پہنچائیں گے۔ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ جبار تو ہماری خوارک ہیں۔ بنی اسرائیل نے انکے اس طرح سے کہنے پر انکو سنگسار کرنا چاہا کیونکہ انھوں نے بنی اسرائیل کو یہ بھی کہا تھا کہ فقط اتنا ہو کہ وہ خداوند سے بغاوت نہ کریں اور نہ ہی اس ملک کے لوگوں سے ڈریں(گنتی 14:8 سے 10)۔ بارہ آدمیوں میں سے صرف دو کا بھروسہ خداوند تھے۔ خدوند ا بنی اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے تھے مگر موسیٰ نبی نے خداوند سے اپنے لوگوں کے لئے التجا کی۔ خداوند نے کہا کہ جیسا انکے سنتے ہوئے میں بنی اسرائیل نے کہا ہے (گنتی 14:2) ویسا ہی ضرور انکے ساتھ ہوگا اور بیس برس سے اوپر کے جتنے گنے گئے اور اس سے شکایت کرتے رہے انکی لاشیں بیابان میں پڑی رہینگی (گنتی 14:27 سے 30)۔ امثال 18:21 کو پڑھیں اور سوچیں کہ اس کہانی سے آپ کو کیا سبق ملتا ہے۔
- پہلے بنی اسرائیل کنعان کی سرزمین میں داخل نہیں ہونا چاہتے تھے مگر پھرموسیٰ نبی سے خداوند کا کہا سن کر وہ روئے اور کہا کہ وہ حاضر ہیں اور جس جگہ کا خدا وند نے وعدہ کیا ہے وہ وہاں ضرور جائیں گے۔موسیٰ نبی نے انھیں خداوند کی حکم عدولی سے منع کیا مگر انھوں نے خداوند کے حکم کی خلاف ورزی کی اور مارے گئے کیونکہ خداوند اس جنگ میں انکے ساتھ نہ تھے۔ میں اور آپ بھی زندگی کی کوئی جنگ تب تک نہیں جیت سکتے جب تک کہ خداوند ہمارے ساتھ نہ ہوں۔ آپ اپنی زندگی کی کونسی ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں خداوند آپ کے ساتھ نہیں؟ آخر اس جنگ میں خداوند آپ کے ساتھ کیوں نہیں؟
- آپ کی نظر میں "خدا وند کے کلام کی حقارت کی(گنتی 15:31)” سے کیا مراد ہے۔ ہمارے زیادہ تر مسیحیوں کی نظر میں پرانے عہد نامے کی کوئی اہمیت نہیں اور شریعت ایک لعنت ہے۔ گنتی کی اس آیت کو دھیان میں رکھ کر سوچیں کہ کیا آپ نے کبھی خدا کے کلام کی حقارت کی ہے؟
- گنتی 15:37 سے 41 میں خدا وند نے کہا کہ بنی اسرائیل نسل در نسل اپنے پیراہنوں کے کنارے پر جھالر لگائیں جسکے اوپر آسمانی رنگ ڈورا ہو۔ اسکو عبرانی زبان میں "ضیتضیت، ציצית Tzitzit ” کہتے ہیں۔ اسکو اپنے پیراہنوں پر لگانے کی وجہ کیا تھی؟ کیا مسیحیوں کو ضیتضیت استعمال کرنی چاہی؟ کیا اس حکم کی کوئی اہمیت ہے؟
- ہاف تاراہ کے حوالے میں راحب کی کہانی ہے جسکا نام یشوعا کے نسب نامے میں ملتا ہے۔ مسیحیوں کی یہ ایک عام سوچ ہے کہ پرانے عہد نامے میں خداوند نے کبھی بھی غیر قوم کو بنی اسرائیل کا حصہ نہیں بنایا یہ نئے عہد نامے دور میں ہوا مگر کلام اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ خداوند کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہیں۔ راحب خدا کے لوگوں میں شامل ہوئی نہ کہ خداوند راحب کے لوگوں میں شامل ہوئے۔ یشوعا کی تعلیم کا مقصد لوگوں کو خداوند کے لوگوں میں شامل کرنا تھا نہ کہ خداوند کو غیر لوگوں میں۔ امید ہے کہ آپ میری بات کو سمجھ پا رہے ہیں۔ راحب کا ذکر آپ کو عبرانیوں کے 11 باب میں بھی ملے گا۔ آپ کے لئے راحب کی کہانی میں خدا وند کا کیا پیغام چھپا ہے؟
- بریت خداشاہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کیا آپ کا دل بنی اسرائیل کی طرح سخت تو نہیں جو خدا وند کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے؟ جنہوں نے خدا وند کی نافرمانی کی اور وہ خداوند کے آرام میں داخل نہ ہوئے ۔ اسکے آرام میں داخل نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟کیا آپ نے کبھی اسکے آرام میں داخل ہونے کا سوچا ہے؟عبرانیوں 4:9 سے 11 کو پڑھیں ۔
میری خداوند سے دعا ہے کہ ہمارا خدا پر ایمان یشوع اور کالب کی طرح مظبوط ہو ۔ چاہے آدھے سے زیادہ مسیحی خداوند پر بھروسہ نہ رکھ پائیں مگر ہم ضرور اسکے بھروسے کے سہارے اپنی زندگی جی پائیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
موضوع: خداوند پر بھروسہ کرنا۔ (آڈیو مسیج 2018)
(Topic: Trusting God (Audio Message 2018