پرشاہ: مِش پاتیم، מִּשְׁפָּטִים، Mishpatim
توراہ، ہاف تاراہ، بریت خداشاہ:
پرشاہ: مِش پاتیم، מִּשְׁפָּטִים، Mishpatim
یترو کے بعد کے پرشاہ کا نام "مِش پاتیم” ہے جسکا مطلب ہے "قوانین، احکام”۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 21:1 سے 24:18
ہاف تاراہ- 2سلاطین 12:1سے 17
بریت خداشاہ- متی 17:1 سے 11 اور متی 5:38 سے 42
ہر ہفتے کے یہ حوالے ہماری اپنی روحانی زندگی کو سنوارنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں تو ان باتوں پر غور کریں اور خدا وند سے کہیں کہ وہ آپ کی مدد کریں تاکہ آپ کلام کو اپنی روحانی زندگی میں اپنا سکیں۔
- ہر ملک کے اپنے اپنے قانون ہوتے ہیں۔ خداوند بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال کر لائے تھے اور اب وہ بیابان میں تھے۔ خداوند نے انہیں دس احکامات دئے تھے مگر اسکے ساتھ ساتھ یہ اضافی احکامات بھی دئے تھے۔ ملک مصر میں بنی اسرائیل کا حاکم فرعون تھا مگر اب انکا بادشاہ خداوند تھے۔ آپ جس ملک میں بھی رہتے ہیں وہاں پر رہتے ہوئے آپ کو ملک کے قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے خیال میں اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو کیا لوگوں کی زندگی بہتر ہوتی؟ کیا قوانین ہونے کی بنا پر آپ کو زیادہ تحفظ حاصل ہے؟ مثال کے طور پر اگر چور کو چوری کی سزا دینے کا کوئی قانون نہ ہوتا یا پھر خون کرنے پر کسی قسم کی سزا کا قانون نہ ہوتا یا پھر مالک کا نوکر کو خدمت کرنے پر معاوضہ نہ دینے کی کوئی سزا نہ مقرر ہوتی اور آپ کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی ہوئی ہوتی تو آ پ قانون نہ ہونے کی صورت میں کیا کرتے؟ آخر قوانین دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ نے اپنے ملک کے قوانین کبھی گننے کی کوشش کی ہے کہ کتنے قوانین ہیں جو کہ آپ پر نافذ ہیں؟
- آپ کو ان حوالوں میں سے کون سا حکم ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت سخت قانون ہے اور آپ شاید اسکو اپنی زندگی میں کبھی بھی نہ اپنائیں؟ کیوں اور کیوں نہیں؟
- خداوند نے انہی احکامات میں اپنی عیدوں کا بھی کچھ ذکر کیا۔ میں نے کچھ پادری صاحبان کو کہتے سنا ہے کہ آپ کو اپنی زمین کے پہلے پھلوں یعنی اپنی تنخواہ میں سے پہلا حصہ خدا وندکے گھر کو دینا چاہئے۔ کیا آپ کے خیال میں وہ صحیح کہتے ہیں ؟ کیا یہ حکم شریعت کا حصہ ہے؟ اگر یہ حکم شریعت کا حصہ ہے تو کیا آپ کو ابھی بھی اس کو پورا کرنا چاہئے؟ آخر کیوں؟
- جب موسیٰ نبی نے بنی اسرائیل کو خدا کے احکامات پڑھ کر سنائے تو انھوں نے کہا "کہ جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے اس سب کو ہم کرینگے اور تابع رہینگے۔” کہنا آسان ہے کرنا بعض اواقات مشکل ہوتا ہے۔ کیا آپ بھی بنی اسرائیل کی طرح اتنی ہی سادگی سے خداوند کے حکموں کو پڑھ کر ان پر عمل کرنے کا اقرار کرتے ہیں چاہے عمل کرنا آسان ہو یا مشکل؟
- ہاف تاراہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کہ خداوند کی نظر میں جو کام ٹھیک ہے وہ آخر کیا ہے؟ آپ کو کس طرح سے علم ہوتا ہے کہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ خداوند کی نظر میں بھی ٹھیک کام ہے؟
- خداوند کے گھر میں لائی ہوئی نقدی کو کن اور کس طرح کے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا آپ اپنی عبادت گاہ میں خوشی سے ہدیہ دینا پسند کرتے ہیں یا یہ سوچ کر دیتے ہیں کہ سب ہدیہ دے رہے ہیں تو میں بھی تھوڑا دے دوں؟ گو کہ اس میں کوئی برائی نہیں مگر اگر ہدیہ دل سے نہیں دیا گیا تو کیا وہ خداوند کی نظر میں مقبول ٹھہرتا ہے؟
- خروج 21:24 کی آیت یشوعا نے متی 5:38 میں بیان کرتے ہوئے ساتھ میں کہا "لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنا گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اسکی طرف پھیر دے۔” خدا وند نے خاص حکم دیا ہے کہ کوئی بھی کلام کی باتوں میں نہ تو کسی قسم کا اضافہ کرے اور نہ ہی کچھ اس میں سے گھٹائے۔ کیا یشوعا ، کلام کے احکامات کو منسوخ کر کے نیا حکم دے رہے ہیں؟ یشوعا نے جو بھی تعلیم دی وہ کوئی نئی تعلیم نہیں تھی کیونکہ اسکا بیج پرانے عہد نامے یعنی تناخ سے ہی تھا۔ پرانے عہد نامے میں سے آپ کتنی آیات کو ذہن میں لا سکتے ہیں جن میں شریر کا مقابلہ نہ کرنے کی تعلیم ہے؟ یشوعا کا ان احکامات کی اس طرح سے تشریح کرنے سے کیا مراد تھی؟
- یشوعا کے شاگردوں نے بادلوں میں سے آواز کو کہتے سنا "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اسکی سنو۔” آپ کے لئے خدا کا یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے؟
میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے احکامات، اپنی توریت پر عمل کرنے کی اہمیت سمجھا سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
موضوع: عہد نامے (آڈیو میسج 2018)
Topic: Covenants (Audio Message 2018)