احبار 2 باب

آپ کلام میں سے احبار کا 2 باب مکمل خود پڑھیں۔

اس باب میں ہم بغیر خون کے لائی گئی قربانی کا پڑھیں گے۔  اس قربانی کو عبرانی میں "مِن خا،  מנחה ,Minchah” کہتے ہیں جس کا لفظی معنی "تحفہ یا نذر” بنتا ہے۔ قائن کے بارے میں ہم پیدایش 4:3 میں پڑھتے ہیں جو کہ خداوند کے حضور میں یہ قربانی لایا۔  احبار 2:1 میں اردو کلام میں یوں لکھا ہے؛

اور اگر کوئی خداوند کے لئے نذر کی قربانی کا چڑھاوا لائے تو اپنے چڑھاوئے کے لئے میدہ لے اور اس میں تیل ڈال کر اسکے اوپر لُبان رکھے۔

یہی آیت عبرانی میں یوں لکھی ہوئی ہے؛

וְנֶ֗פֶשׁ כִּֽי־תַקְרִ֞יב קָרְבַּ֤ן מִנְחָה֙ לַֽיהוָ֔ה סֹ֖לֶת יִהְיֶ֣ה קָרְבָּנֹ֑ו וְיָצַ֤ק עָלֶ֙יהָ֙ שֶׁ֔מֶן וְנָתַ֥ן עָלֶ֖יהָ לְבֹנָֽה:

 اس  آیت میں  لفظ "נפש، نیفیش، Nefesh” کا ترجمہ اردو کلام میں "کوئی” سے کیا گیا ہے۔ ترجمہ غلط نہیں ہے۔ مگر اس لفظ سے اصل مراد "جان” بنتا ہے۔ احبار 17:11 میں درج ہے؛

کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے اور میں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اُسے تم کو دیا ہےکہ اس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا  ہے۔

ہم نے پچھلے باب کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ  غریب انسان  قمری یا کبوتروں کے بچے کوعولا  یعنی سوختنی قربانی میں پیش کر سکتا تھا۔  یشوعا  کی پیدایش کے بعد مریم اور یوسف  نے خداوند کے حکموں کے مطابق قمری یا کبوتر کے دو بچوں کی قربانی چڑھائی۔ میں نے ایک امریکی عورت پاسٹر کو یشوعا کی امیری کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا کہ کیسے یشوعا ایک عام گھر میں نہیں بلکہ امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔  مریم اور یوسف کا قربانی میں پرندوں کی قربانی کا چڑھانا اس بات کا ثبوت  دیتا ہے کہ یشوعا بہت امیر خاندان میں نہیں پیدا ہوئے تھے۔   کلام کی باتیں کلام کو گہرائی میں سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیا کریں۔

اگر کوئی شخص اس قابل بھی نہیں تھا کہ وہ پرندے خرید کر انکی قربانی چڑھا سکے تو خداوند نے  اس سے نذر کے طور پر  ایک وقت کی خوراک کے برابر اناج  کو نذر کرنے کا حکم دیا۔  یہ تین طرح سے پیش کیا جا سکتا تھا۔ ایک کہ میدہ میں تیل اور لبان ملا کر  کاہن کے سامنے پیش کرے کہ کاہن اسے مذبح کے اوپر جلائے۔  آٹا/ میدہ بدن کو ظاہر کرتا ہے۔ تیل ، مسح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یا پھر خداوند کے حضور چراغ روشن کرنے کرنے کے لئے اور لبان، راستباز کی دعاؤں کو ظاہر کرتا ہے۔  خداوند نے اسکو قربانیوں میں  پاک ترین چیز قرار دیا۔ نذر  کی قربانی   تنور یا توئے پر بھی پکا کر پیش کی جاسکتی تھی مگر اسکا بے خمیری ہونا لازم تھا یا پھر وہ کڑاہی میں تلا کر بھی پیش کی جاسکتی تھی۔ کسی بھی صورت میں اسے خمیر اور شہد سے پاک ہونا تھا۔ نذر کی قربانی میں نمک لازم جُز تھا۔ نمک ، خداوند کے عہد  کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نذر کی قربانی کا بچا ہوا حصہ کاہن کے پاس جاتا تھا مگر نذر لانے والے کے حصے میں کچھ نہیں   رہتا تھا۔ اگر نذر کی قربانی پہلے پھلوں کے طور پر پیش کی جاتی تھی تو  یہ صرف آتشین قربانی ٹھہرتی تھی مگر راحت انگیز خوشبو نہیں۔

میں نے اوپر "نیفیش” کا ذکر کیا۔  جسم کی جان خون میں ہے۔ کہنے کو تو یہ بغیر خون کے قربانی ہے اور باقی قربانیوں سے ہٹ کر ہے۔ یہ قربانی چڑھانے والے کی ہاتھ کی مشقت اور اسکی لگن اور نیت کو ظاہر کرتی ہے۔ "نیفیش” کی اچھی نیت کے بغیر اس قربانی کو چڑھانا فائدہ مند نہیں۔  پیدایش 4 باب میں قائن قربانی تو لایا مگر دل سے یا اچھی نیت سے نہیں۔   مِن خا کی قربانی  چڑھانے والے میں  اسکا اپنا خون  یعنی نیفیش شامل ہے۔  اپنے ہاتھ کی محنت ، اپنے تھوڑے میں سے خداوند  کو دینا، آسان نہیں۔ خداوند قربانی چڑھانے والے کے  دل کو دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ دینے والے نے  ایک طرح سے اپنے آپ کو ، اپنی خوراک کو قربان کر کے خداوند کے حضور یہ حقیر قربانی چڑھائی ہے۔ غریب انسان کے پاس خداوند کی حضوری میں  بڑی قربانی گذراننے کو سوائے اپنے آپ کے، اپنی معمولی سی خوشی کے اور کچھ نہیں۔  یہی اچھی نیت اس قربانی کو بڑا  بنا دیتی ہے

  آپ کو انجیل مُقدس میں سے  بیوہ عورت کی کہانی شاید یاد ہو۔ لوقا 21:1 سے 4 میں  اس عورت کا یوں حوالہ لکھا ملتا ہے۔

پھر اس نے آنکھ اٹھا کر اُن دولتمندوں کو دیکھا جو اپنی نذروں کے روپے ہیکل کے خزانے میں ڈال رہے تھے۔ اور ایک کنگال بیوہ کو بھی اس میں دو دمڑیاں ڈالتے دیکھا۔ اس پر اُس نے کہا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ ان سب نے تو اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اس نے اپنی ناداری کی حالت میں جتنی روزی اسکے پاس تھی سب ڈال دی۔

 نذر کا چندہ ! آپ کو شاید علم ہی ہو کہ یشوعا  نے یہ دیکھ کر  یہ بات کی تھی۔  اگر آپ  ہر چیز کو افراط سے پانا چاہتے ہیں تو ناداری کی حالت میں خوشی سے اور اچھی نیت سے خداوند کو دینا سیکھیں کیونکہ پولس رسول نے 2 کرنتھیوں 9:7 میں کہا؛

جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔

آج کے دور میں آپ مَن خا کی قربانی یونہی چڑھا سکتے ہیں کہ اپنے تھوڑے میں سے خداوند کے نیک کام کے لئے اپنی آمدنی کو خرچ کریں۔ 2 کرنتھیوں کے 9 باب کو پڑھیں اور سوچیں کہ کیوں ایسا کرنا ضروری ہے۔

سوختنی قربانی مکمل جلا دی جاتی تھی جو کہ قربانی چڑھانے والے  کی اس نیت کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس نے اپنا آپ مکمل طور پر خداوند کو دے دیا ہے۔ مگر نذر کی یہ قربانی  مٹھی بھر خداوند کی حضوری میں جاتی تھی اور باقی کاہنوں کو۔  نذر کی قربانی  اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو کچھ ہم خداوند کے لئے کرتے ہیں اس کے حصے دار  ہمارے وہ روحانی رہنما بھی ہیں  جو خداوند کی حضوری میں یہ قربانی چڑھانے میں ہمارے مدد کرتے ہیں۔ ہم خداوند کی خدمت نہیں کر سکتے اگر ہم اپنے ان روحانی رہنماؤں کی خدمت  میں شامل نہیں ہو رہے جنہیں خداوند نے چنا ہے تبھی پولس رسول نے کہا 2 کرنتھیوں 8:1 سے 5 میں؛

اب ائے بھائیو!  ہم تم کو خدا کے اس فضل کی خبر دیتے ہیں جو مکدنیہ کی کلیسیاؤں پر ہوا ہے۔ کہ مصیبت کی بڑی آزمائش میں انکی بڑی خوشی اور سخت غریبی نے انکی سخاوت کو حد سے زیادہ کر دیا۔ اور میں گواہی دیتا  ہوں کہ انہوں نے مقدور کے موافق بلکہ مقدور سے بھی زیادہ اپنی سے خوشی سے دیا۔ اور اس خیرات اور مقدسوں کی خدمت کی شراکت کی بابت ہم سے بڑی منت کے ساتھ درخواست کی اور ہماری امید کے موافق ہی نہیں دیا بلکہ اپنے آپ کو پہلے خداوند کے اور پھر خدا کی مرضی سے ہمارے سپرد کیا۔

 اوپر اس آیت میں ، "اپنے آپ کو خداوند کو دینا” ، سوختنی قربانی چڑھانا ہے اور پھر "ہمارے” یعنی رسولوں کو دینا جن کو خداوند نے  خیرات دینے والوں کے لئے  دیا، نذر کی قربانی چڑھانا ہے۔ انھوں نے اپنی سخت غریبی میں خوشی سے بڑھ کر کیا تاکہ رسولوں کے ساتھ انکے کام یعنی خوشخبری کی منادی کرنے کے حصے دار بنتے۔ ہم نے احبار میں پڑھا تھا  کہ یہ قربانی خمیر اور شہد سے پاک ہو۔ شہد بھی خمیر کی مانند   استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسلئے اسکو بھی یہاں خمیر ہی سمجھیں۔  خمیر گناہ کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے اعمال  گناہ سے پاک ہونے چاہیے تاکہ خداوند کے حضور میں  قربانی مقبول ٹھہرے۔ ایک لمحے کے لئے پھر سے قائن کی لائی ہوئی قربانی کے بارے میں سوچیں۔  ہمیں مکاشفہ 2:26 میں لکھا ملتا ہے؛

جو غالب آئے اور جو میرے کاموں کے موافق آخر تک عمل کرے میں اسے قوموں  پر اختیار دونگا۔

یہ اختیار ، ابراہام سے کئے ہوئے عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس آیت میں "میرے کاموں” سے مراد یشوعا کے کاموں بنتا ہے جو کہ خداوند کے دئے ہوئے احکامات کی نشاندہی کرتا ہے۔ میں اس آرٹیکل کو  ایک آخری آیت سے ختم کرونگی افسیوں 6:6 سے 7 آیات؛

اور آدمیوں کو خوش کرنے والوں کی طرح دکھاوے کے لئے خدمت نہ کرو بلکہ مسیح کے بندوں کی طرح دل سے خدا کی مرضی پوری کرو۔ اور اس خدمت کو آدمیوں کی نہیں بلکہ خداوند کی جان کر جی سے کرو۔

ہم مزید آگے بھی ان قربانیوں  کے بارے میں تھوڑا بہت دیکھیں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ میں اور آپ اپنی غربت  کے دنوں میں یہ یاد رکھ کر خداوند کی راہ میں نذر کر سکیں کہ ایک وقت کی روٹی یا تھوڑا سا پیسہ  خداوند کو دے دینے سے میرا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو ایک وقت کی  بھوک سے میں مرونگی اور نہ ہی تھوڑے سے پیسوں سے میں امیر ہو جاؤنگی بلکہ خداوند کو دے دینے سے یہ صحیح وقت پر پھر سے میرے پاس ہی لوٹ کر آئیں گے۔  اور امیری میں میں اسلئے خداوند کی نذر کرونگی کہ جس نے مجھے غربت سے نکالا ہے اور امیری میں کھڑا کیا ہے وہ عظیم خدا  بادشاہ ہے جو کہ میری صحیح  بے عیب اور قیمتی قربانی چڑھانے  کے لائق ہے،  اسکو میں شکر گذاری میں جتنا بھی دونگی کم ہوگا، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔