احبار 1 باب

آپ کلامِ مقدس سے احبار 1 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

احبار کی کتاب کے تعارف میں ، میں نے ایک خاص بات نہیں بیان کی  ۔ جب ہم احبار 1 کے پہلے حرف "وا-یکرا،  וַיִּקְרָא ,Vayikra, کو توریت کے طومار میں دیکھیں تو اس میں اس کا آخری حرف  "א” الیف   عام لکھائی سے  چھوٹا لکھا گیا ہوا ہے۔  شاید آپ  نے میرے کسی آرٹیکل میں پڑھا ہو  کہ میں نے بتایا تھا کہ عبرانی حرف "الیف” خدا   کو بھی  ظاہر کرتا ہے۔  میں یہودی دانشوروں کی اس  کے بارے میں تعلیم  کو نہیں بیان کرونگی۔ مگر میرے اپنے ذہن میں جو بات آ رہی ہے وہ ضرور بتاتی چلوں۔ "وا-یکرا” کے معنی  ہیں  "اور بلایا” ۔ الیف کا چھوٹا لکھا ہوا ہونا، یشوعا کے الفاظ مجھے یاد آ رہے ہیں ، یشوعا نے کہا "میں  حلیم ہوں اور  دل کا فروتن۔۔۔۔(متی 11:29)۔ ایلیاہ نبی کے ساتھ خداوند کی ملاقات  میں ایلیاہ نبی نے خداوند کی  ہلکی آواز کو سنا (1 سلاطین 19:12):

اور زلزلہ کے بعد آگ آئی پر خداوند آگ میں بھی نہیں تھاور آگ کے بعد ایک دبی ہوئی ہلکی آواز آئی۔

آپ کو اور مجھے اگر احبار  کی اس کتاب  میں خداوند کے پیغام کو سننا ہے تو اس حلیم دبی ہوئی ہلکی آواز پر دھیان دینا ہے جو کہ ہر کوئی نہیں سن پائے گا۔ ہم  اس باب سے قربانیوں کے بارے میں پڑھنے لگے ہیں۔ عبرانی میں قربانی کو "قربان” ہی کہا جاتا ہے اور اسکی جمع کے لئے لفظ "قربانوت،  קרבנ(ות)،  Korbanot” ہے۔  عبرانی لفظ "قربان” ، عبرانی لفظ "قروؤ , קרב Karev, ” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں "قریب آنا”۔ קרב، آپ کو یہ حروف عبرانی لفظ قربان میں نظر آ رہے ہونگے۔ گناہ تو انسان کو خدا سے دور کر دیتا ہے مگر قربانی  انسان کو خدا کے قریب لانے کے لئے ہے۔ احبار 1:2  میں یوں لکھا ہے؛

بنی اسرائیل سے کہ کہ جب تم  میں سے کوئی خداوند کے لئے چڑھاوا چڑھائے تو تم چوپایوں یعنی گائے بیل اور بھیڑ بکری کا چڑھاوا چڑھانا۔

میرے خیال سے اردو میں جو لفظ "چڑھاوا” ہے وہ عبرانی میں "یقروؤ، יקרב ,YaKarev ” ہے،  یعنی کہ میں اگر اسکا ترجمہ کروں تو میں شاید یوں کروں "جب تم میں سے کوئی خداوند کے قریب آنا چاہے۔۔۔۔” اردو ترجمہ غلط نہیں ہے آپ کو جلد ہی سمجھ میں آجائے گا۔ مگر میں نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے یوں ترجمہ لکھا۔ سوختنی قربانی  سب سے پہلی قربانی ہے جس  کو احبار میں بیان کیا گیا  ہے۔ امید ہے کہ آپ  احبار 1 باب کو پورا خود پڑھیں گے۔ خداوند نے غریب اور امیر ہر ایک  کے لئے بیان کیا کہ وہ کس قسم کی سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی قربانی پیش کر سکتے ہیں۔  سوختنی قربانی کے لئے گائے، بیل، بھیڑ بکری اور  قمری یا کبوتروں کے بچے استعمال کئے جا سکتے تھے۔  قربانی کے لئے چوپائے یا پرندے  ہمیشہ بے عیب چنے جاتے تھے۔ چوپایوں کی کھال صرف کاہن کے حصے میں آ سکتی تھی مگر باقی تمام قربانی کو مکمل جلا دیا جاتا تھا۔  آج کی زبان میں بولیں تو کہا جا سکتا ہے کہ تمام کے تمام پیسے آگ میں جلا دینا J  حاصل کیا ہونا تھا تمام پیسوں کو خوشی سے جلا کر؟ قربانی کا مقصد یہ تھا قربانی لانے والا خداوند کے حضور میں مقبول ٹھہرے۔ یہ قربانی لازم قربانی نہیں تھی۔ اپنی خوشی سے خداوند کے حضور چڑھانے کے لئے تھی۔  یہ سوختنی قربانی خداوند کے لئے راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی ہے۔   راحت انگیز خوشبو، عبرانی میں "ریآخ نیخوآخ،  ריח ניחח ,Reyach Nichoach, ” ہے ۔  خوشبو کے لئے لفظ "ریآخ” ہے جو کہ  عبرانی لفظ روح کی مانند ہی ہے۔  اور "نیخوآخ” میں لفظ "نوآخ” یعنی نوح نظر آتا ہے جس سے مراد "راحت یا آرام” ہے۔  سوختنی قربانی کے سر پر قربانی چڑھانے والے کا اپنا ہاتھ رکھنا (احبار 1:4) اور دعا بولنا اس سوچ کو  یا نیت کو (روح کو) دکھاتا ہے جس کی بنا پر وہ اپنی خوشی سے خداوند کی حضوری میں قربانی پیش کرتا ہے۔ یہی نیت خداوند کی حضوری میں راحت انگیز خوشبو ٹھہرتی ہے۔

زبور 51:15 سے 17 آیات میں یوں لکھا ہے؛

ائے خداوند ! میرے ہونٹوں کو کھول دے تو میرے منہ سے تیری ستایش نکلے گی۔ کیونکہ قربانی میں تیری خوشنودی نہیں ورنہ میں دیتا۔ سوختنی قربانی  سے تجھے کچھ خوشی نہیں۔ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ ائے خدا تو شکستی اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔

عولا یعنی یہ آتشین قربانی دن میں دو دفعہ لائی جاتی تھی، صبح اور شام (خروج 29:38 سے 42)۔ ہیکل کے ختم ہو جانے کے بعد سے اس  قربانی  کی جگہ  دعاؤں نے لے لی ہے اور یہی   سوچ ہمیں اوپر زبور 51 کی آیت میں نظر آتی ہے۔ یہودی ہمیشہ سے جانتے آئے ہیں کہ خداوند انسان سے کس قسم کی قربانی مانگتے ہیں۔  وہ جانتے ہیں کہ خداوند کو جانوروں کی قربانی نہیں بلکہ انسان کی روح کی قربانی چاہیے۔آج ایک عام روایت پسند یہودی  دن میں  کم سے کم 2 سے 3 بار خداوند کی حضوری میں  آتا ہے کہ عولا چڑھا سکے۔

سوختنی قربانی کو عبرانی میں "عولا،  עלה Olah, ” کہا جاتا ہے۔  آپ کو عبرانی کلام میں بعض جگہوں پر عولا کے  سپیلنگ یوں نظر آئیں گے "עולה "۔  عولا  کے  معنی ہیں  "چڑھنا”۔ آج کل  جب  کوئی اسرائیل  میں  ہمیشہ رہنے کے لئے جاتا ہے تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ ہم "عالیہ, עליה Aliyah,” کر رہے ہیں۔  مگر یہی لفظ جب سبت والے دن عبادت گاہ میں  توریت کے  پارشاہ کے حصے پڑھنے  کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے  یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ  شخص اپنی جگہ چھوڑ کر توریت کے طومار کی طرف بڑھ کر  توریت کی تلاوت کرے گا/گی۔ اس شخص کو  جس نے عبرانی میں توریت کی تلاوت کرنی ہوتی ہے اسکو” عولا، עולה  Oleh,” پکارا جاتا ہے۔ کم سے کم تین "عولیم (عولا کی جمع)” ،(شخص )جو توریت  کے طومار کے گرد کھڑے ہوتے ہیں ، موجود ہوتے ہیں۔ مردوں نے اپنے اوپر تلیت اوڑھی ہوتی ہے۔  چاہے مرد یا عورت توریت کی تلاوت  کرتے وقت ضرور سر ڈھانکتے ہیں۔

 خداوند نے اپنا  مقدس (ہیکل)  بنانے کے لئے جو جگہ استعمال کی لوگ اسکی طرف جانے کے لئے  ہمیشہ اوپر کی طرف چڑھتے ہیں۔ عالیہ سے مراد صرف "چڑھنا” نہیں بلکہ اس سے مراد روحانی  طور پر سربلند ہونا بھی ہے۔ اب کی بار جب آپ صبح شام دعا میں بیٹھیں تو ضرور اس بات کو سوچیں کہ یہ وقت عام وقت نہیں بلکہ خداوند کے حضور میں قربانی گذراننے کا وقت ہے جو کہ آپ اپنی مرضی سے اسکو دینا چاہتے ہیں  خداوند آپ کو یہ قربانی گذراننے پر مجبور نہیں کر رہے۔

میں احبار 1 کے مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اور دعا مانگتی ہوں کہ ہم خداوند کی حضور میں خوشی سے "عولا ” لانے والے ٹھہریں اور اپنی زندگی ایسی گذاریں کہ خداوند کی نظر میں ایک راحت انگیز خوشبو ہو جیسا کہ نئے عہد نامے میں لکھا ملتا ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین