خروج 25 باب (پہلا حصہ)

آپ کلامِ مقدس سے خروج کا 25 باب مکمل پڑھیں۔

اب ہم کلام مقدس کے ان ابواب کا مطالعہ کرنے لگے ہیں جن کو سمجھنا اور جاننا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے زیادہ تر مسیحی علما ان کی اہمیت سے تو انکار نہیں کرتے مگر انھیں اس طرح سے سمجھتے نہیں جس طرح سے ان کی سمجھ  بوجھ رکھنی چاہیے۔  میں  اگلے چند ابواب کی تمام باتوں کی گہرائیوں میں نہیں جاؤنگی مگر اتنا علم آپ کو ضرور دیتی جاؤنگی جو کہ آگے  خیمہ اجتماع کے ساتھ ساتھ خداوند کے گھر یعنی اسکی ہیکل کو بھی سمجھنے میں مدد دے سکے۔ خداوند نے چاہا تو جلد ہی ہمارے وہ بھائی جن کو خداوند نے انکا گہرا علم دیا ہے وہ اس پر اپنی تعلیم پیش کریں گے۔

خداوند نے موسیٰ کو فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل سے نذر لانے کا کہیں اور صرف انکی نذر قبول کریں جو کہ دل کی خوشی سے دیں۔  یہ وہ آیات ہیں جن کو اکثر آج کے زمانے میں چندہ اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے خاص طور  پر جب چرچ کی عمارت کھڑی کرنی ہو یا پھر چرچ سے متعلق کوئی پراجیکٹ ہو۔ میں انکو غلط نہیں کہونگی۔ مگر  یہ حقیقت ہے کہ وہ جو  کلام کی آیات کا غلط استعمال کرتے ہیں خداوند انکو بے گناہ نہ چھوڑیں گے۔  2 کرنتھیوں 9:7 میں لکھا ہے؛

جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اسی قدر دے نہ دریغ کرکے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔

خداوند نے بنی اسرائیل سے نذر اکٹھی کرنے کا جو مقصد بتایا تھا  وہ ہمیں خروج 25:8 میں  لکھا ملتا ہے۔ وہاں لکھا ہے؛

اور وہ میرے لئے ایک مقدس بنائیں تاکہ میں انکے درمیان سکونت کروں۔

یشوعا کے بارے میں یوحنا کی انجیل  1:14 میں لکھا ہے؛

اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اسکا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔

اگر آپ نے خروج 24 کو کلامِ مقدس سے پڑھا تھا تو شاید آپ کو یاد ہو کہ 17 آیت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل نے خدا کے جلال کا منظر دیکھا تھا۔  یوحنا کی انجیل میں  انکی گواہی ہے کہ انھوں نے کلام کا جلال دیکھا۔ اور کلام خدا تھا۔۔ جس نے انکے درمیان سکونت کی مگر تھوڑی  دیر کے لئے  (جسم میں)۔(اس پر مزید بات پھر کبھی ہوگی۔) اسلئے میرے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کا گہرائی میں مطالعہ کریں کہ جب خداوند نے بنی اسرائیل کو نذر لانے کو کہا کہ وہ خداوند کے لئے مقدس بنائیں، تو اس سے متعلق کیا احکامات تھے اور ہم روحانی طور پر ان باتوں کو اپنی زندگی میں کس طرح سے  اپنا سکتے ہیں کہ خدا ہمارے درمیان سکونت اختیار کریں۔

نذر لانے اور قبول کرنے کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ دل سے لائی گئی  ہو۔ دل!یہی  زیادہ تر لوگوں کی زندگی کی رکاوٹ ہے کہ وہ  دماغ سے زیادہ دل سے سوچتے ہیں۔ شیماع میں  اسی بات پر زور دیا گیا ہے۔ شیماع سے مراد ہے "سن” جسکا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ سنو اور عمل کرو۔ شیماع ، یہودیوں اور میسیانک یہودیوں کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ یہ وہ دعا ہے جو دن میں کم سے کم دو بار بولی جاتی ہے کیونکہ ربیوں کی تعلیم  کے مطابق حکم ہے کہ "لیٹتے اور اٹھتے ”  وقت لکھا ہے اسلئے صبح اور شام ضرور بولنی چاہیے۔ شیماع آپ کو استثنا 6:4 سے 9 آیات میں ملے گی۔ ویسے تو مکمل شیماع میں اور بھی آیات شامل ہیں مگر استثنا  کی آیات مرکزی آیات ہیں۔ استثنا 6:5 میں لکھا ہے؛

تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔

آپ میں سے چند ایک جو صرف نیا عہد نامہ ہی پڑھتے ہیں یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تو "یسوع مسیح” یعنی یشوعا کے الفاظ ہیں۔ جی یشوعا نے توریت کو منسوخ نہیں کیا تھا بلکہ اسکو اپنی تعلیم دینے میں استعمال کیا تھا۔  یرمیاہ 17:9 میں لکھا ہے؛

دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے۔ اسکو کون دریافت کر سکتا ہے؟

خداوند اپنا مسکن ہمارے درمیان قائم کریں اسکے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنی نذریں اسکے حضور میں دل سے لائیں۔  نذر کے لئے عبرانی میں لفظ "تروماہ،  תְּרוּמָה، Terumah” ہے۔ اسکو آپ ایسے ہی سوچیں جیسے جب آپ کسی کو گفٹ دینے کا سوچتے ہیں۔ گفٹ وصول کرنے والا اگر آپ کی نظر میں اعلیٰ شخصیت ہے جس سے شاید آپ کو فائدہ ہو یا پھر شاید آپ انھیں گھٹیا گفٹ دے کر ناراض نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کی کوشش ہوگی کہ قیمتی گفٹ دیں جو آپ کے لئے قابل برداشت ہو۔ اور بعض اواقات تو انسان اپنی برداشت سے بڑھ کر بھی تحفہ دینے کی سوچتا ہے۔ اب اگر آپ ملاکی کی کتاب کو پڑھنا چاہیں تو کلام میں سے اسے پڑھیں اور خود ان باتوں پر غور کریں۔  خداوند  نے لوگوں سے چیزوں کی نذر  مانگی تھی۔ بنی اسرائیل نے خود سے ایسا کرنے کی نہیں سوچی تھی۔  اگر انھیں خداوند کے حضور میں اپنی نذر پیش کرنی تھی تو وہ دل سے کرنی تھی۔

میں جب اپنے بارے میں بھی سوچتی ہوں تو اکثر خیال آتا ہے کہ میں نے کتنی دفعہ خود سے خداوند کے لئے کچھ کرنے کا سوچا ہے؟   میں اپنی روحانی زندگی کے شروع کے سالوں میں ایسی نہیں تھی مگر اب میرے خیالات بدل گئے ہیں اور بدل رہے ہیں۔ میں خود دل سے  اور خوشی سے خداوند کے حضور میں نذر لے کر آنا چاہتی ہوں تاکہ میری نذر "مشکان، یعنی خداوند کا مسکن” بنانے کے لئے استعمال ہو سکے۔ میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ خداوند آپ کو اس بات کی توفیق دیں کہ جب بھی آپ اسکی حضوری میں آئیں تو خوشی سے آئیں نہ کہ بوجھ سمجھ کر، یشوعا کے نام میں۔ آمین