نحمیاہ 13 باب (پہلا حصہ)
آپ کلامِ مقدس میں سے نحمیاہ کا 13 باب پورا خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔
نحمیاہ کا 13 باب ، اس کتاب کا آخری باب ہے۔ مجھے شاید اسے دو یا تین حصوں میں بیان کرنا پڑے مگر اس باب کے مطالعے کے ساتھ ہی ہمارا نحمیاہ کی کتاب کا مطالعہ ختم ہوجائے گا۔ ہم نے پچھلے باب میں پڑھا تھا کہ بنی یہوداہ نے یروشلیم شہر کی تقدیس کی۔ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ انھوں نے شریعت کی کتاب کو پڑھتے سنا۔ لکھا ہے کہ اس دن انہوں نے لوگوں کو موسیٰ کی کتاب میں سے پڑھکر سنایا اور اس میں یہ لکھا ملا کہ عمونی اور موآبی خدا کی جماعت میں کبھی نہ آنے پائیں۔ کیونکہ انھوں نے روٹی اور پانی سے بنی اسرائیل کا استقبال نہیں کیا بلکہ بلعام کو انکے خلاف اجرت پر بلایا تاکہ ان پر لعنت کرے پر خداوند نے اس لعنت کو برکت میں بدل دیا۔ شریعت کو سن کر ان لوگوں نے ملی جلی بھیڑ کو بنی اسرائیل سے جدا کر دیا۔
موسیٰ کی کتاب سے مراد توریت ہے جس میں خداوند کے دئے ہوئے احکامات درج ہیں۔ جب تک انھوں نے توریت کو نہیں پڑھا انھیں سمجھ نہیں آئی کہ خداوند کی نظر میں کیا گناہ ہے۔ ہمارا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے جب تک ہم بائبل نہیں پڑھیں گے کبھی بھی نہیں سوچ پائیں گے کہ خدا نے کن باتوں کو گناہ قرار دیا ہے۔
بنی اسرائیل نے اپنے بیچ سے ملی جلی بھیڑ کو جدا کیا۔ ہمیں اردو بائبل میں تو اس "ملی جلی بھیڑ” کا نہیں پتہ چلتا کہ اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے مگر عبرانی لفظ کچھ آئیڈیا دیتا ہے۔ عبرانی میں یہ لفظ "عروو، עֵ֖רֶב، Erev” ہے۔ عبرانی کے اس لفظ سے مراد شام بھی ہے یعنی جب سورج ڈھل رہا ہو، روشنی ختم ہو رہی ہو ۔ یہی لفظ ہمیں خروج 12:38 میں بھی ملتا ہے جب بنی اسرائیل کو خداوند ملک مصر سے نکال لایا تو کافی "عروو” ، بھیڑ (گروہ) بھی انکے ساتھ مصر کو چھوڑ کر نکلے تھے۔ یہ ملی جلی بھیڑ وہ لوگ تھے جو کہ "یہودی” نہیں تھے لہذا انکو "مقدس مجمع” سے جدا کیا گیا۔ ان لوگو ں کو یروشلیم سے نہیں نکالا گیا بلکہ جماعت سے باہر نکالا گیا۔ یہاں ان لوگوں کی بات نہیں ہو رہی جنہوں نے غیرقوموں میں شادیاں کی تھیں۔ عمونی اور موآبی ، یہوواہ خدا کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مولک اور کموس کو پوجتے تھے۔ ملی جلی بھیڑ سے مراد ایسے ہی لوگ تھے جو کہ جان کر بھی خداوند کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ بت پرستی سے ہی وابستہ تھے۔
ہم نے جب روت کی کتاب کا مطالعہ کیا تھا تو اس میں دیکھا تھا کہ روت کہنے کو تو موآبی تھی مگر اس نے یہوواہ خدا کو اپنا لیا اور خداوند نے اسکو قبول کرکے اسکو برکت بخشی۔ لہذا یہ سوچنا صحیح نہیں کہ خداوند عمونی اور موآبی لوگوں کو قبول نہیں کرتے۔ کوئی بھی جب تک خود پورے دل سے خداوند کی طرف متوجہ نہ ہو وہ خداوند کے حضور مقبول نہیں ٹھہرے گا۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر اب رومیوں 2:28 اور 29کو پڑھیں، وہاں لکھا ہے؛
کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ ایسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔
یہ لوگ ملے جلے لوگ تھے یہودیوں میں شامل ہو کر وہ یہودی نہیں بنے وہ پھر بھی وہی رہے جو وہ شروع سے تھے۔ انھوں نے اپنی روشوں کو نہیں بدلا اور انھوں نے خداوند کو واحد خدا نہیں مانا۔ اگر آپ اپنی روشوں کو نہیں بدلیں گے اور خداوند کو واحد خدا نہیں مانیں گے تو خداوند آپ کو اپنی جماعت سے دور کر دیں گے۔
آگے ہم پڑھتے ہیں کہ الیاسب کاہن جو کہ طوبیاہ کا رشتہ دار تھا اور خدا کی گھر کی کوٹھریوں کا مختار تھا اس نے طوبیاہ کے لئے بڑی کوٹھری تیار کی ۔ اس نے وہ کوٹھری اس کے لئے تیار کی جہاں پر نذر کی قربانیاں اور لبان اور برتن اور اناج اور مے اور تیل کی دہ یکیاں ہونی چاہیں تھی۔ طوبیاہ عمونی تھا۔ الیاسب نے خداوند کی خدمت پورے دل سے کرنے کی بجائے رشتہ داری نبھانا پسند کی۔ یہ کام اس نے تب انجام دیا جب نحمیاہ ارتخششتا بادشاہ کے پاس گیا ہوا تھا۔ یروشلیم واپس آنے پر نحمیاہ کو معلوم پڑا کہ کہانت کی خدمت کا کام ایک بار پھر سے بگڑگیا تھا۔ خدمتگذار لاوی اور گانے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے کیونکہ انھیں انکا حصہ نہیں مل رہا تھا۔ خدمت گذاروں کو اپنے حق کا حصہ نہیں مل رہا تھا انھیں اپنا پیٹ پالنا تھا وہ کیسے خداوند کی خدمت کا کام بغیر روٹی کے انجام دیتے رہتے؟ انھوں نے خداوند کی خدمت کے کام کو چھوڑ کر اپنی روزی روٹی کی فکر کرنا شروع کی۔ انکا اس طرح سے خدمت کو چھوڑ کر جانا انھیں گنہگار نہیں ٹھہراتا تھا بلکہ انھیں جنہوں نے انھیں انکا حصہ نہیں دیا بلکہ اسکا غلط استعمال شروع کر دیا۔ انکا گناہ الیاسب کے اور ان لوگوں کے سر پر تھا جن کے اختیار میں تھا کہ اس کے لئے صحیح قدم اٹھاتے مگر وہ خود اس گناہ کا سبب بنے۔ نحمیاہ نے طوبیاہ کو خدا کے گھر کی کوٹھری سے باہر نکالا اور ایک بار پھر سے جس مقصد کے لئے کوٹھری بنائی گئی تھی اس کو صحیح استعمال میں لایا گیا۔ نحمیاہ نے ان خدمتگذاروں کو بھی پھر سے اکٹھا کیا اور انکو انکا حصہ دلوایا تاکہ خداوند کے گھر کی خدمت کا کام صحیح طور پر انجام دیا جا سکے۔نحمیاہ نے ان لوگوں کو کاہن اور خزانچی مقرر کیا جو دیانتدار تھے۔ اور اس نے خداوند سے کہا کہ وہ اسکے نیک کاموں کو یاد رکھے۔
آج کل ایک عام فیشن بن گیا ہے کہ خداوند کی خدمت کے لئے اپنے تمام خاندان کو کام پر لگا دو چاہے انکے دل کتنے ہی خداوند سے دور کیوں نہ ہوں۔ اور وہ جو جن کو خداوند نے اس کام کے لئے چنا ہے انکو باہر کر دو۔ اگر خداوند کے لوگ اپنا کام صحیح کریں تو وہ خود اس بڑے گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ خداوند کی خدمت، خدمت کم اور ایک بڑا بزنس بن کر رہ گیا ہے۔ وہی مسلہ جو نحمیاہ کو پیش تھا آج ہمارے سامنے بھی ہے۔ وہ جن کو خداوند کے گھر میں نہیں ہونا چاہئے وہ اپنا ڈیرا جما کر بیٹھے ہیں اور ایسے لوگوں کا ساتھ دینے والے وہ ہیں جن کو ہم "خداوند کا خادم” پکارتے ہیں۔ وہ جن کو خداوند کے گھر کی خدمت میں مگن ہونا چاہیے اپنے حق کا حصہ نہ ملنے اور اپنی جگہ غیروں کو کھو دینے کی وجہ سے، باہر کام کاج میں مصروف ہیں۔ ہمیں نحمیاہ جیسے ان لیڈروں کی ضرورت ہے جو کہ ایسے غیروں کو باہر نکال سکیں جو کہ خداوند کو دل وجان سے قبول نہیں کرتے، جو کہ خداوند کی شریعت سے ہٹ کر اپنی شریعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جن کو خداوند کے کلام سے زیادہ اپنے نفع کی فکر ہے۔
میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اور خداوند سے دعا کرتی ہوں کہ وہ اپنے لوگوں کو عقل و سمجھ دے کہ وہ خداوند کے حکموں پر اپنے اوپر دل و جان سے عمل کر سکیں۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین