نحمیاہ 9 باب
آپ کلام میں سے نحمیاہ کا 9 باب مکمل پڑھیں۔
ہم نے پچھلے باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ بنی اسرائیل نے خیموں کی عید منائی۔ خیموں کی عید پر توریت کو پڑھا جاتا ہے اور ہم نے یہ پچھلے باب میں بھی پڑھا تھا کہ بنی اسرائیل نے شریعت کو پڑھتے سنا۔ (میری نظر میں لفظ شریعت، توریت کا ناقص ترجمہ ہے مگر خیر۔ ) شریعت کے قوانین کو جان کر انھیں احساس ہوا ہوگا کہ وہ خداوند کے گناہ گار ہیں۔ انکے دلوں نے انھیں ملامت کی ہوگی تبھی انھوں نے ساتویں مہینے کی چوبیس تاریخ کو یعنی خیموں کی عید کے دو دن بعد ، روزہ رکھا۔ خداوند کی اس عید پر شادمانی کرنے کا حکم ہے۔ روزہ رکھنا، جان کو دکھ دینے کے برابر ہے۔ انھوں نے خیموں کی عید کے دوران روزہ نہیں رکھا مگر اسکے ختم ہونے کے بعد روزہ رکھا۔ انسان جب بھی گناہ کرتا ہے تو اسکا گناہ سب سے پہلے خداوند کے خلاف ہوتا ہے تبھی زبور 51:4 میں لکھا ہے؛
میں نے فقط تیرا ہی گناہ کیا ہے اور وہ کام کیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہےتاکہ تو اپنی باتوں میں راست ٹھہرے اور اپنی عدالت میں بے عیب رہے۔
انھوں نے ٹاٹ اوڑھا اور اپنے سر پر خاک ڈالی جو کہ ماتم کا نشان ہے۔ انھوں نے اپنے گناہوں کا ماتم کیا۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو پردیسیوں سے الگ کیا اور کھڑے ہو کر اپنے گناہوں اور اپنے باپ دادا کے گناہوں کا اقرار کیا۔ تین گھنٹے تک انھوں نے توریت کی کتاب پڑھی اور تین گھنٹے تک اپنے خداوند کا اقرار کرکے اسے سجدہ کیا۔
یہودی/میسیانک یہودی جو کہ روایات کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرتے ہیں بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ نحمیاہ 9:5 کی آیت عبادت کا حصہ ہے۔ اسکے الفاظ پر مشتمل عبرانی زبان میں گیت ہیں۔ زبور کی کتاب سے تو آپ بخوبی واقف ہیں ۔ زبور کی کتاب کا استعمال خداوند کے گھر میں عبادت کے لئے کیا جاتا تھا۔ لاوی لوگوں کو خداوند کی عبادت کرنے میں قیادت فراہم کرتے تھے۔ آپ کو نحمیاہ 9:5 میں ان لاویوں کے نام ملیں گے جنہوں نے بنی اسرائیل کی اس توبہ کی عبادت میں قیادت کی۔ اگر آپ چاہیں تو زبور 105، 106 اور 107 پڑھ کر اسکا نحمیاہ 9 باب کے ساتھ موازنہ کر سکتے ہیں۔
بنی اسرائیل نے خداوند کی حمد و ثنا کی اور خداوند کے عہد کو یاد کیا۔ انھوں نے خداوند کے ان معجزوں کو یاد کیا جب خداوند نے بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال لایا تھا۔ انھوں نے خداوند کے دئے ہوئے آئین و فرمان کو یاد کیا۔ اسکی شریعت کو یاد کیا۔آسمان کی روٹی کو یاد کیا۔ انھوں نے بنی اسرائیل کی گردن کشی کا اقرار کیا اور ساتھ ہی میں خداوند کے رحیم و کریم ہو کر گناہوں کو معاف کرنے پر خداوند کی حمد کی۔ انھوں نے یاد کیا کہ خداوند نے ان کے آباؤ اجداد کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہمیشہ اپنے وعدے پر قائم رہا ہے۔ 1 تواریخ 17:22 میں لکھا ہے؛
کیونکہ تو نے اپنی قوم اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے اپنی قوم ٹھہرایا ہےاور تو آپ ائے خداوند انکا خدا ہوا ہے۔
خداوند نے کبھی بھی اپنی قوم اسرائیل کو نہیں چھوڑا۔ تبھی رومیوں 11:1 سے 2 میں لکھا ہے؛
پس میں کہتا ہوں کیا خدا نے اپنی امت کو رد کر دیا؟ ہرگز نہیں! ۔۔۔۔۔۔ خدا نے اپنی اس امت کو رد نہیں کیا جسے اس نے پہلے سے جانا۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمیاہ 9:6 سے 9:37 تک کی تمام کہانی ہمیں عبرانی کلام میں نظر آتی ہیں۔ ایک بات جو آپ بار ہا نوٹ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب جب بنی اسرائیل نے خداوند کی شریعت کو چھوڑا ، وہ مشکلوں میں پڑے مگر خداوند نے ہر بار انکی فریاد کو سنا اور اپنے وعدے کے مطابق قائم رہ کر انھیں نجات بخشی۔ خداوند نے انھیں ترک نہ کیا اور اپنے نبیوں کی معرفت ہر بار کوشش کی کہ بنی اسرائیل واپس خداوند کی طرف اور خداوند کی شریعت یعنی توریت کی طرف لوٹیں۔ انھی تمام باتوں کو دھراتے ہوئے اور ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے بنی اسرائیل نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔ انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ خداوند عادل ہے اور وہ ہمیشہ سچائی سے ان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ انھوں نے اس بات کو دل و دماغ سے سمجھا کہ جب جب بنی اسرائیل نے خداوند کی شریعت کو رد کیا ہے وہ مشکلوں میں سے گزرے اور جب جب انھوں نے توبہ کی اور خداوند کی شریعت پر عمل کرنا شروع کیا، خداوند نے انھیں انکے تمام دشمنوں سے چھٹکارا دلایا۔ اسلئے انھوں نے نحمیاہ 9:38 میں کہا؛
ان سب باتوں کے سبب سے ہم سچا عہد کرتے اور لکھ بھی دیتے ہیں اور ہمارے امرا اور ہمارے لاوی اور ہمارے کاہن اس پر مہر کرتے ہیں۔
یعقوب 1:25 میں لکھا ہے؛
لیکن جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اسلئے برکت پائے گا کہ سنکر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔
بنی اسرائیل نے شریعت کی باتوں کو صرف پڑھتے سنا ہی نہیں تھا۔ انھوں نے اس پر عمل بھی کرنے کا عہد کیا۔ یعقوب رسول نے اسی ہی خط کے آخر میں یہ بھی کہا ہے کہ "اپنے آپ کو دنیا سے بیداغ رکھیں"۔ توریت کو جانے بغیر آپ اپنے آپ کو دنیا سے بیداغ نہیں رکھ سکتے کیونکہ صرف اور صرف اسی میں خداوند نے اپنے آپ کو پاک کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے۔
مسیحیت کہنے کو تو بائبل کی باتوں کو اپنائے ہوئے ہے مگر انھوں نے کبھی بھی توریت کی باتوں پر اس طرح سے عمل نہیں کیا جس طرح سے کلام عمل کرنے کو کہتا ہے۔ پولس رسول نے رومیوں 7:14 میں کہا؛
شریعت تو روحانی ہے مگر میں جسمانی اور گناہ کے ہاتھ بکا ہوا ہوں۔
مسیحی لوگ کہتے ہیں کہ "شریعت لعنت ہے” ۔۔۔ خدا معاف کرے۔ اگر نئے عہد نامے کے مطابق ” شریعت خوب ہے (رومیوں 7:16) اور شریعت روحانی ہے” تو پھر شریعت لعنت کیسے ہوسکتی ہے؟ لعنت صرف ایک صورت میں ہے وہ بھی تب جب لوگ شریعت کی باتوں پر عمل نہ کریں تو اس میں لکھی ہوئی لعنتیں انسان کے اپنے اوپر آن پڑتی ہیں مگر شریعت بذات خود لعنت ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ استثنا 28:15 میں لکھا ہے؛
لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سنکر اسکے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرےتو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہونگی اور تجھ کو لگینگی۔
آپ ان چند لعنتوں کو استثنا 28:15 سے 68 میں پڑھ سکتے ہیں۔ اور اسی باب کے آخر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند اپنے لوگوں کو انکے دشمنوں کا غلام کیونکر بنا دیتے ہیں۔ عزرا اور نحمیاہ کی کتاب میں اپنے عہد کے مطابق خداوند اپنے لوگوں کو واپس لائے اب لوگوں کا کام تھا کہ وہ پھر سے خداوند کی شریعت کے مطابق چلتے۔ مسیحی قوم استثنا کے اس باب کو پڑھ کر اپنے ساتھ ہوئی ہوئی باتوں کو شریعت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ چاہے وہ دشمنوں کی سرزمین میں غلامی کی زندگی بسر کرنا ہے یا پھر قرضے تلے دبنا اور یا پھر اپنے دشمنوں کو اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ زیادتی سے پیش آتے دیکھنا ہے، یہ سب کی سب باتیں خداوند کی شریعت پر نہ عمل کرنے کی لعنت ہے۔ میں اپنے تمام آرٹیکلز میں بار بار اس بات پر زور دیتی آ رہی ہوں کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ اس پر نہ عمل کرنا لعنت ہے اور یہی وہ لعنت ہے جس سے یشوعا نے ہمیں چھڑایا ہے۔ لعنت سے چھٹکارا مل گیا ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ اب ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ نجات حاصل کرنے کے بعد شریعت پر عمل کرنا لازم ہے۔
میں نحمیاہ 9 باب کے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ خداوند آپ کو "شریعت کی لعنت سے چھڑانے” کا اصل مفہوم سمجھائیں اور اپنی شریعت پر عمل کرنے کی طاقت و قوت بخشیں۔ یشوعا کے نام میں آمین۔