نحمیاہ 2 باب (پہلا حصہ)
آپ کلام میں سے نحمیاہ کا 2 باب مکمل پڑھیں۔
نحمیاہ کا 1 باب اس جملے سے ختم ہوتا ہے کہ "میں تو بادشاہ کا ساقی تھا۔” ہم نے عزرا کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ عزرا کاہنوں میں سے تھا۔ میں نے عزرا کے مطالعے میں بار بار ذکر کیا ہے کہ ہم نے اسکا مطالعہ تفصیل میں نہیں کیا ہے۔ عزرا نے دوسری ہیکل میں خداوند کی خدمت کو اسی طرح سے نافذ کرنے کی کی تھی جس طرح سے داود بادشاہ نے حکم دیا تھا مگر عزرا نے کچھ اور باتوں کو بھی نافذ کیا تھا جن پر یہودی اور میسانک یہودی ابھی بھی عمل کرتے ہیں۔ عزرا اگر خداوند کے کاہنوں میں سے تھا تو نحمیاہ خداوند کے عام لوگوں میں سے تھا جس کو خداوند نے خاص مقصد کے لئے استعمال کیا۔ نحمیاہ سیاست دان تو نہیں تھا مگر آپ اسکو اس مطالعے کو سمجھنے کے لئے ایسا سوچ سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک عام سیاست دان اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے صدر کے سامنے درخواستیں پیش کرتے ہیں اور اپنے علاقے کی بھلائی کا کام کرتے ہیں۔
ہم نے نحمیاہ کے پہلے باب میں بات کی تھی کہ بیسویں برس کسلیو کے مہینے میں نحمیاہ کو یروشلیم شہر کی خستہ حالت کی خبر ملی تھی اور نحمیاہ 2 باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ ارتخششتا بادشاہ کے بیسویں برس نیسان کے مہینے میں نحمیاہ بادشاہ کے آگے جب مے پیش کر رہا تھا تو وہ افسردگی کی حالت میں تھا۔ اور جب بادشاہ نے اس سے اسکی افسردگی کی وجہ دریافت کی تو وجہ میں نحمیاہ نے یروشلیم شہر کی خستہ حالت بیان کی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ عبرانی کیلنڈر کے مطابق کسلیو نواں مہینہ ہے اور نحمیاہ کے 1 باب میں بھی بیسویں برس کی بات ہو رہی ہے مگر جب نحمیاہ 2:1 پڑھو تو بیسویں برس نیسان کے مہینے کی بات ہو رہی ہے جو کہ عبرانی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔۔۔ آخر کہاں غلطی ہے؟ کلام میں غلطی نہیں ہے۔ کوئی بھی جو کہ عبرانی کیلنڈر کو جانتا ہے شاید اس بات کو بھی جانتا ہو کہ اسرائیلی لوگ ہر سال میں چار نئے سال گنتے ہیں۔ ہمارا کلام کے مطابق نیسان کا مہینہ پہلا مہینہ تب سے گنا گیا جب خداوند نے ملک مصر سے اپنے لوگوں کو نکالتے وقت ہدایت دی تھی۔ ہم ساتھ ہی میں خروج کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں اور اگر آپ نے خروج کے 12 باب کا مطالعہ پڑھا ہے تو میں نے وہاں ذکر کیا ہے کہ خداوند نے نیسان کے مہینے کو "مہینوں کا شروع اور سال کا پہلا مہینہ” پکارا۔ کلام میں درج خداوند کی عیدوں کے لئے جب مہینوں کودیکھا جائے تو نیسان پہلا مہینہ بنتا ہے ۔ اسرائیل کے سِول کیلنڈر کے مطابق تشری جو کہ ساتواں مہینہ ہے پہلا مہینہ گنا جاتا ہے اور 1 تشری کو سِول کیلنڈر کے مطابق نیا سال شروع ہوتا ہے۔ نحمیاہ کے ان ابواب میں سِول کیلنڈر کے مطابق مہینے گنے جا رہے ہیں ۔ اگر سِول کیلنڈر کو دیکھا جائے تو کسلیو تیسرا مہینہ پڑا اور نیسان ساتواں۔ زیادہ تر علما کہتے ہیں کہ بابل کی اسیری کے وقت سے بنی اسرائیل نے بابل کا کیلنڈر اپنا لیا۔
1الول کو آپ چوپایوں کا نیا سال کہہ سکتے ہیں مگر اس مہینے قربانی کے لئے چوپایوں کی دہ یکی نکالی جاتی تھی۔ اور 15 سباط پیداوار کی دہ یکی ہیکل میں لانے کے عہد کا نیا سال تھا۔ ابھی بھی ان کو منایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو سمجھ نہ آ رہی ہو مگر چونکہ ہمارا مطالعہ اسکے بارے میں نہیں اسلئے ہم ان کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔
نحمیاہ کا یہ کہنا کہ اس سے پہلے وہ کبھی بادشاہ کے حضور میں اداس نہیں ہوا تھا میرے خیال سے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے کام کو ہمیشہ خوشی سے انجام دیتا آیا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ کبھی بھی اداس نہیں ہوا ہوگا۔ بادشاہ نے اسکو مے پیش کرتے ہوئے دیکھ کر اندازہ لگایا کہ دیکھنے میں تو وہ اپنا کام کر رہا تھا مگر اسکا دل و دماغ کہیں اور تھا تبھی بادشاہ نے پوچھا کہ (نحمیاہ 2:2):
سو بادشاہ نے مجھ سے کہا تیرا چہرہ کیوں اداس ہے باوجودیکہ تو بیمار نہیں ہے؟ پس یہ دل کے غم کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ تب میں بہت ڈر گیا۔
ساقی کا رتبہ اہم رتبہ تھا۔ اگر کوئی ضیافت چل رہی ہو تو افسردگی کا اظہار کام کے دوران میں مناسب رویہ نہیں تھا تبھی نحمیاہ ڈر گیا۔ نحمیاہ کو یروشلیم کی خبر چار مہینے پہلے ملی تھی ۔نحمیاہ نے اپنا وقت روزہ رکھنے اور دعا میں گذارا تھا۔ روزہ رکھنے سے ایک اور مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خداوند کے حضور عاجز کیا تھا۔ ان چار مہینوں میں نحمیاہ کو نہیں علم تھا کہ کیسے خداوند نحمیاہ کی دعاؤں کا جواب دیں گے۔ خداوند نے نحمیاہ کی دعا کے جواب کا جو وقت مقرر کیا تھا وہ آ گیا تھا۔ ابھی تو بادشاہ کے اس سوال سے نحمیاہ نے سوچا ہوگا کہ اسکی نوکری خطرے میں ہے۔ جواب تو نحمیاہ کو دینا ہی تھا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ ہمیشہ جیتا رہے۔ وہ کیونکر اداس نہ ہو جبکہ اسکا وہ شہر جہاں اسکے باپ دادا کی قبریں ہیں اجاڑ پڑا ہے اور اسکے پھاٹک آگ سے جلے ہوئے ہیں؟ نحمیاہ نے اپنی افسردگی کی وجہ کو چھپانے کی خاطر جھوٹ کا سہارا نہیں لیا تھا۔ جو اسکی افسردگی کی وجہ تھی وہ اس نے صاف بیان کر دی۔ نحمیاہ کسی انجانے انسان سے بات نہیں کر رہا تھا کہ یہ کہتا "نہیں کوئی وجہ نہیں”، "میں بالکل ٹھیک ہوں "، یا پھر "کوئی خاص وجہ نہیں، بس ایسے ہی دل اداس ہے، یا پھر شاید ” نہیں چھوڑیں میری افسردگی کو اسکا کوئی حل نہیں۔” نحمیاہ کے جواب نے بادشاہ کے دل میں اسکے لئے نرم دلی پیدا کر دی۔
ساقی پر بادشاہ کا بھروسہ باقیوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ تبھی بادشاہ کو لگا ہوگا کہ وہ اپنے قابل اعتماد نوکر کے لئے کچھ تو کر سکتا ہوگا۔ بادشاہ نے نحمیاہ سے پوچھا کہ اسکی کیا درخواست ہے؟ اس وقت نحمیاہ نےآسمان کے خدا سے دعا کی۔ پھر نحمیاہ نے اپنی درخواست بادشاہ کے سامنے پیش کی کہ اگر بادشاہ کی مرضی ہو تو وہ اس پر کرم کی نظر کر کے اسے یہوداہ میں اسکے باپ دادا کی قبروں کے شہر کو بھیج دے تاکہ وہ اسے تعمیر کر سکے۔ بادشاہ کے ساتھ ہی ملکہ بھی بیٹھی ہوئی تھی، اس نے نحمیاہ سے پوچھا کہ اس کا سفر کتنی مدت کا ہوگا۔ نحمیاہ نے بادشاہ کو وقت مقرر کر کے بتا دیا۔ نحمیاہ نے بادشاہ سے دریا پار حاکموں کے لئے پروانے مانگے تاکہ وہ نحمیاہ کو یہوداہ تک جانے دیں۔ ساتھ ہی میں نحمیاہ نے گذارش کی کہ شاہی جنگل سے لکڑی حاصل کر سکے۔ لکھا ہے کہ چونکہ خداوند کی شفقت کا ہاتھ نحمیاہ پر تھا بادشاہ نے اسکی عرض قبول کی۔
ہم نحمیاہ کے 2 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ خداوند اپنی شفقت کا ہاتھ آپ پر ہمیشہ رکھے، یشوعا کے نام میں۔ آمین