خروج 20 باب (چھٹا حصہ)

ہم نے پچھلے چند حصوں میں ان احکامات کے بارے میں مطالعہ کیا تھا جو کہ خداوند سے متعلق تھے۔ اگر ہم ان حکموں کو توڑیں تو نقصان صرف اور صرف ہمیں ہوگا۔ مگر اب ہم ان حکموں کا مطالعہ کرنے لگے ہیں کہ جن کو اگر ہم توڑیں تو ہم صرف اپنے آپ کو ہی تکلیف میں نہیں مبتلا کر رہے ہونگے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ کسی دوسرے  انسان کو بھی متاثر کریں گے۔

دس احکامات میں درج پانچواں حکم کلام میں یوں درج ہے(خروج 20:12):

تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔

باپ اور ماں کی عزت کے اس حکم کے ساتھ عہد جڑا ہے کہ خدا بنی اسرائیل کی عمر کو اس ملک میں دراز کریگا اگر وہ اس حکم کو مانیں گے۔ احبار 19:3 میں اس حکم کو ایسے کہا گیا ہے؛

تم میں سے ہر ایک اپنی ماں اور باپ سے ڈرتا رہے اور تم میرے سبتوں کو ماننا۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔

اس آیت میں اس حکم کو اتنی ہی اہمیت دی گئی ہے جتنی کہ سبت کو پاک ماننے کو دی گئی ہے۔  ڈر سے مراد خوف  کھانا نہیں بلکہ عزت کرنا ہے۔ربیوں کی تعلیم کے مطابق خداوند نے ماں اور باپ دونوں کو ایک  برابر درجہ دیا ہے  تبھی اگر دس احکامات میں باپ کا ذکر پہلے ہے تو ماں کا ذکر احبار میں درج حکم میں پہلے ہے۔

ہم انسانوں نے حکموں  کے بارے میں اپنی رائے قائم کر ڈالی ہوئی ہے۔ ہمارے آج کے معاشرے میں والدین کی عزت نہ کرنا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے مگر کسی کا قتل زیادہ بڑا گناہ ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ احکامات خداوند نے دئے ہیں اور کلام ان احکامات کو ایسے شاید نہ بیان کرتا ہو جیسے ہم سوچتے ہیں۔   رومیوں 1:28 سے 32 آیات کو دیکھیں۔ یہاں لکھا ہے؛

اور جس طرح انہوں نے خدا کو پہچاننا ناپسند کیا اسی طرح خدا نے بھی انکو ناپسندیدہ عقل کے حوالہ کردیا کہ نالائق حرکتیں کریں۔ پس وہ ہر طرح کی ناراستی بدی لالچ اور بدخواہی سے بھر گئے اور حسد خونریزی جھگڑے مکاری اور بغض سے معمور ہوگئے اور غیبت کرنے والے۔ بدگو۔ خدا کی نظر میں نفرتی اوروں کو بے عزت کرنے والے مغرور شیخی باز بدیوں کے بانی ماں باپ کے نافرمان۔ بیوقوف عہد شکن طبعی محبت سے خالی اور بیرحم ہوگئے۔ حالانکہ وہ خدا کا یہ حکم جانتے  ہیں کہ ایسے کام کرنے والے موت کی سزا کے لائق ہیں۔ پھر بھی نہ فقط آپ ہی ایسے کام کرتے ہیں بلکہ اورکرنے والوں سے بھی خوش ہوتے ہیں۔

میرے خیال سے یہ آیات تمام دس احکامات کی خلاف ورزیوں کو بیان کرتی ہیں۔ بد انسان خدا کو پہچاننا پسند نہیں کرتا اور اسی وجہ سے وہ ایسے تمام ناپسندیدہ کام کرتا ہے جن کی  سزا کلام کے مطابق موت ہے۔  ربی یہ سیکھاتے ہیں کہ  اس چھٹے حکم کا ماننا اس بات پر منحصر نہیں کہ والدین اچھے یا برے ہیں بلکہ ہمیں اپنے والدین کی اس لئے عزت کرنی ہیں کہ انھوں نے ہمیں جنم دیا ہے۔ ماں باپ خداوند کی شبیہ کی مانند بنائے گئے ہیں۔ والدین کی عزت کرنے سے ہم ساتھ ہی میں آسمانی باپ کی عزت کرنا  سیکھتے ہیں۔  میں اس حکم کی بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگی کیونکہ آگے بھی ہم ان کا مطالعہ کریں گے۔

ہمارا چھٹا حکم خروج 20:13 میں ایسے درج ہے؛

تو خون نہ کرنا۔

ویسے تو بہت سے اس حکم کو سادگی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسکا مطلب خون نہ کرنا ہے مگر بہت سے وہ بھی ہیں جو کہ   دفاعی خدمت انجام دیتے ہیں مثال کہ طور پر پولیس والے، فوجی یا نیوی آفیسر وغیرہ، اسلئے کچھ  کے لئے یہ حکم اتنا سادہ نہیں جتنا پڑھنے میں لگتا ہے۔ کسی نے میرے سے سوال کیا کہ کلام میں لکھا ہے کہ تو خون نہ کرنا مگر ساتھ ہی میں ہمیں آگے کلام میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ خداوند نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ  قتل کریں یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں کو بھی نہ چھوڑیں تو یہ کس قسم کا حکم ہے؟

ہمارے خروج 20:13 کی اس آیت میں "خون نہ کرنا” کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے  "(ت) ر(ت)زآخ תִּֿרְצָֽ֖ח،T’ratsach"۔ רְצָֽ֖ח، ر(ت)زآخ سے مراد "غیر منصفانہ یا بلا وجہ خون” ہے۔  لہذا اگر میں اس کا لفظی مطلب لکھوں تو یہ حکم ایسے بنے گا "تو بلاوجہ یا غیر منصفانہ خون نہ کرنا”۔   ہم آگے بھی ان احکامات کا خروج 21 باب  میں بھی کچھ مطالعہ کریں گے۔  میرے خیال سے اگر اس حکم کا ترجمہ اس طرح سے دیکھا جائے کہ بلا وجہ خون کرنے سے منع کیا گیا ہے تو اس حکم سے جڑی کچھ غلط فہمیاں  دور ہوجاتی ہیں۔   انسان کا ناحق خون کرنا خداوند کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ یشوعا نے متی 15:19 میں کہا؛

کیونکہ برے خیال ۔ خونریزیاں۔ زناکاریاں۔حرامکاریاں۔ چوریاں۔جھوٹی گواہیاں۔بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔

اسی آیت کو یشوعا کی” خون نہ کرنے” کی اس تعلیم سے ملا کر دیکھیں (متی 5:21 سے 22):

تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کریگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہیگا وہ صدرِ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو اسکو احمق کہیگا وہ آگ کے جہنم کا سزاوار ہوگا۔

انسان غصے میں الٹی حرکتیں کرتا ہے۔ غصے کو کنٹرول نہ کرو تو خون کر بیٹھتا ہے تبھی یشوعا نے اس سوچ کے بیج کو ہی قصوروار ٹھہرایا ہے۔ یشوعا کے کہنے سے "لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں۔۔۔” مراد یہ نہیں تھا کہ وہ کوئی ہمیں توریت سے مختلف حکم دے رہے تھے۔ نہیں کوئی حکم توریت کے حکموں سے الگ نہیں تھا۔ یشوعا یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ہم اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کریں گے تو بالآخر ضرور  قتل جیسا گناہ کر بیٹھیں گے۔ تبھی زبور 37:8 میں لکھا ہے؛

قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے بیزار نہ ہو۔ اس سے برائی ہی نکلتی ہے۔

 جیسے جیسے ہم توریت کا مطالعہ کر رہے ہیں ہم ساتھ میں  یشوعا کی سکھائی ہوئی باتوں کو بھی  توریت میں دیکھتے جائیں گے۔  امید ہے کہ آپ کو اب بہتر سمجھ آگیا ہوگا کہ یشوعا نے کوئی نئی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ توریت کی تعلیم کو صحیح طورپر سمجھایا ہے۔ ہم اگلی دفعہ باقی حکموں کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اتنی ہمت دے کہ ہم صرف اسکے کلام کو پڑھنے والوں میں سے ہی نہ ہوں  بلکہ اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ یشوعا نے نام میں۔ آمین