خروج 17 باب (دوسرا حصہ)

ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ خداوند وہ چٹان ہے جس نے بنی اسرائیل کو پینے کے لئے پانی مہیا کیا۔ خروج 17:7 میں ہم پڑھتے ہیں ؛

اور اس نے اس جگہ کا نام مسہ اور مریبہ رکھا کیونکہ بنی اسرائیل نے وہاں جھگڑا کیا اور یہ کہہ کر خداوند کا امتحان کیا کہ خداوند ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں۔

مسہ اور مریبہ عبرانی الفاظ ہیں۔ "مسہ” کا مطلب ہے "امتحان/آزمایش” اور "مریبہ” کےمعنی ہیں "جھگڑا کرنا یا بڑبڑانا”۔ بنی اسرائیل نے خداوند کو آزمایا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں تھا کہ وہ خداوند اور موسیٰ کے خلاف بڑبڑائے تھے مگر خداوند کو آزمانا۔۔۔۔، یہ انتہا درجے کی حماقت تھی۔ اسی بنا پر بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا جو ہمیں استثنا 6:16 میں لکھا ملتا ہے؛

تم خداوند اپنے خدا کو مت آزمانا جیسا تم نے اسے مسہ میں آزمایا تھا۔

زبور 95:8 سے 9 میں لکھا ہے؛

تم اپنے دل کو سخت نہ کرو جیسا مریبہ میں جیسا مساہ کے دن بیابان میں کیا تھا۔ اس وقت تمہارے باپ دادا نے مجھے آزمایا اور میرا امتحان کیا اور میرے کام کو بھی دیکھا۔

بنی اسرائیل کو خداوند نے منع کیا کہ وہ خداوند کو مت آزمائیں۔ یشوعا نے ہمیں اپنے پیچھے پیچھے چلنا کا حکم دیا ہے۔ جب شیطان یشوعا کو آزمانے آیا تھا تو اس نے یشوعا نے کہا (متی 4:6)؛

اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دیگا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔

جواب میں یشوعا نے شیطان کو کہا (متی 4:7)؛

یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔

میں پہلے یہ بات سمجھا چکی ہوئی ہوں کہ توریت جس کو مسیحی "شریعت” پکارتے ہیں موسیٰ کی پہلی پانچ کتابوں پر مشتمل ہے جو کہ پیدایش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا ہیں۔ جب شیطان نے یشوعا کو کہا تھا کہ "اگر وہ خدا کا بیٹا ہے تو فرمائے کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں” تو یشوعا نے جواب میں اس سے کہا تھا "کہ آدمی صرف روٹی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔” یشوعا نے جب شیطان کو کہا تھا "کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر” تو وہ استثنا 6:16 کی آیت تھی۔ اور اگر آپ یشوعا کا دوسری دو آزمایشوں کا جواب بھی کلام میں سے ڈھونڈیں تو وہ بھی استثنا کی کتاب میں سے آیات پر ملے گا۔ یشوعا نے اپنے اوپر آئی ہوئی آزمایشوں کا جواب کلام میں سے دیا۔ یشوعا کو علم تھا کہ جیسا شیطان نے کہا تھا وہ ضرور پورا ہوگا مگر جانتے بوجھتے خدا کی قوت اور قدرت کو امتحان میں ڈالنا مناسب نہیں۔ صرف کسی کے کہنے پر ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انسان پرجب مصیبت آتی ہے تو وہ خدا کے خلاف بڑبڑانا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر مسیحی روح میں اس مقام پر آ ہی نہیں پاتے کہ شیطان کی طرف سے ان آزمایشوں کا مقابلہ "توریت” کی باتوں سے کر پائیں۔ آپ اپنے آپ کو روح میں کس مقام پر پاتے ہیں؟ کیا آپ کلام کو یعنی کہ اپنے خدا کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے دل کو سخت کرنے کی بجائے اور خدا کے خلاف بڑبڑانے کی بجائے یہ کہہ سکیں "کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے۔۔۔۔(پیدایش 18:14)”۔ آپ اس جملے کو اپنی صورت حال کو بیان کر کے کہہ سکتے ہیں "۔۔۔۔۔۔ کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے جو وہ میرے لئے ایسا نہ کر سکے؟ پر میں خداوند اپنے خدا کو آزما کر اسکے خلاف گناہ نہیں کرونگا/کرونگی”۔

ہم واپس اپنے خروج کے مطالعے پر آتے ہیں۔ خروج 17:8 میں درج ہے کہ رفیدیم میں عمالیقی اسرائیل سے لڑنے لگے۔ موسیٰ نے یشوع سے کہا کہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ آدمیوں کو لے کر عمالیقیوں سے لڑے اور موسیٰ خدا کی لاٹھی اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا رہے گا۔ یشوع ، موسیٰ کے حکم کے مطابق عمالیقیوں سے لڑنے لگا مگر موسیٰ اور ہارون حور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ موسیٰ نے اپنے ہاتھ جب تک اٹھائے رکھے بنی اسرائیل عمالیقیوں پر غالب ہوتے تھے مگر جیسے ہی اسکے ہاتھ تھک کے لٹک جاتے تب عمالیقی غالب آجاتے۔ ہارون اور حور نے ایک پتھر لیکر موسیٰ کے نیچا رکھ دیا اور وہ اس پر بیٹھ گیا اور ہارون اور حور اسکے ہاتھوں کو سنبھالے رہے تاکہ نیچے نہ گریں۔ آفتاب کے غروب ہونے تک موسیٰ نے اپنے ہاتھ اٹھائے رکھے اور یشوع نے عمالیق اور اسکے لوگوں کو تلوار کی دھار سے شکست دی۔ خداوند نے موسیٰ کو اس بات کی یادگاری کے لئے کتاب میں لکھنے کو کہا کہ وہ یشوع کو سنا دے کہ عمالیق کا نام و نشان دنیا سے بالکل مٹا دونگا۔ فتح یابی کی شکرگذاری میں موسیٰ نے ایک قربان گاہ بنائی اور اس قربان گاہ کا نام "یہوواہ نسی” رکھا۔ موسیٰ نے کہا کہ خداوند نے قسم کھائی ہے ، خداوند عمالیقیوں سے نسل در نسل جنگ کرتا رہیگا۔ ان تمام باتوں میں سیکھنے اور جاننے کو بہت کچھ ہے۔ میں تمام باتوں کی تفصیل میں نہیں جاؤنگی مگر چند باتوں کو ضرور بیان کرونگی۔

سب سے پہلی اور اہم بات۔ قربانگاہ کا نام یہوواہ نسی رکھنے کے معنی یہ نہیں تھے کہ موسیٰ نے کوئی بت کھڑا کیا تھا۔ ویسے ہی جیسے کہ ہمیں کلام میں ابرہام، اضحاق اور یعقوب کا حوالہ ملتا ہے کہ انھوں نے خداوند کی شکرگذاری میں قربانگاہ بنائی ویسے ہی قربان گاہ بناتے ہوئے خداوند کی تعریف میں موسیٰ نے خداوند کو "یہوواہ نسی” پکارا ۔ میں نے اپنے "پرئیر واریر” کے آرٹیکلز میں ذکر کیا تھا کہ "نسی” کے معنی ہیں "جھنڈا”۔ نسی عبرانی لفظ ہے جس میں ہمیں عبرانی لفظ "نس” بھی نظر آتا ہے جسکے معنی "معجزہ” بھی ہے۔ ہمیں کلام میں یہوواہ نسی کے الفاظ صرف یہیں ملیں گے۔

آخر کیا وجہ تھی کہ خداوند نے قسم کھائی کہ وہ نسل در نسل عمالیقیوں سے جنگ کرتا رہیگا جب تک کہ عمالیق کا نام و نشان دنیا سے بالکل مٹ نہ جائے؟ استثنا 25:17 سے18 میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے کہ ؛

یاد رکھنا کہ جب تم مصر سے نکل کر آرہے تھے تو راستہ میں عمالیقیوں نے تیرے ساتھ کیا کیا۔کیونکہ وہ راستہ میں تیرے مقابل کو آئے اور گو تو تھکا ماندہ تھاتو بھی انہوں نے انکو جو کمزور اورہ سب سے پیچھے تھے مارا اور انکو خدا کا خوف نہ آیا۔

عمالیقی قوم کے بارے میں میں نے مختصراً آستر کی کتاب کے مطالعے میں بتایا تھا کہ عمالیق، عیسو کے بیٹے الیفیز کی حرم تمنع سے پیدا ہوا تھا (پیدایش 36:12)۔ کلام عمالیقی قوم کو بزدل اور ظالم بیان کرتا ہے جو کہ کمزور پر حملہ کرتے ہیں۔ انھیں خدا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ استثنا 25:19 میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کے نام و نشان کو مٹا دیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بعد میں ساؤل بادشاہ نے بھی اس حکم کی نافرمانی کی۔ عمالیقی قوم کو نہ تب خدا کا خوف تھا اور نہ ہی اب۔ انکا انجام آخر کار ہلاکت ہی ہے۔

موسیٰ سے خدا نے فتح کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ اگر موسیٰ پہاڑ پر خدا کے لاٹھی کو ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے تو اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ وہ خدا کی اس فتح یابی کو بیان کر رہے تھے جو کہ خداوند نے پہلے انھیں دکھائی تھی۔ اس پر اور بھی بات کی جا سکتی ہے مگر میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرونگی۔ اگلی دفعہ ہم خروج کے 18 باب کا مطالعہ کریں گے۔

شابات شلوم۔ (عبرانی لفظ شابات کے معنی ہیں "سبت” اور شلوم کے معنی ہیں "سلامتی”)۔