(دعائے ربانی؛ (دوسرا حصہ

پچھلی بار ہم نے دعائے ربانی کے پہلے جملے "ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے”، پر نظر ثانی کی تھی اور آج ہم "تیرا نام پاک مانا جائے” کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔ اگر آپ نے وہ آرٹیکل نہیں پڑھا تو اس کو وقت نکال کر ضرور پڑھیں۔

"ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے”؛ میں نے جو دعائے ربانی کا سانچہ پیش کیا تھا یہ اسکے پہلے حصے "حمد و تعریف” کے بیچ میں آتا ہے۔ سانچہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ اپنی ذاتی دعا مانگیں تو اس سانچہ کو دھیان میں رکھ کر اپنی دعا مانگیں۔ جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ دعا لمبی ہو یا چھوٹی یہ آپ کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ آپ کتنا وقت اپنے آسمانی باپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنی ذاتی زندگی میں جو ایک بات نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ میں جب خدا کو اپنا وقت دیتی ہوں تو وہ میرے پورے دن کے کام کو خود منظم کر دیتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ روز اسکے لیے وقت نکال سکیں۔

۔۔۔۔۔تیرا نام پاک مانا جائے۔۔۔۔۔۔

افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسیحیوں کو یہ علم نہیں کہ انکے خدا کا نام کیا ہے۔ بہت سے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ اسکا نام الوہیم یا ال یا یہواہ یری ہے۔ میرے سے جب غیر مسیحی یہ بات کریں کہ آپ کا اور میرا خدا ایک ہی ہے تو میں ان سے اکثر کہتی ہوں "جی نہیں میرا خدا آپ کا خدا نہیں میرے خدا کا نام یہواہ ہے۔” بولنے میں تو تھوڑا سا بد تمیزانہ انداز لگتا ہے مگر مجھے اسکی خاص پروا نہیں میں ان لوگوں کو صاف بتانا چاہتی ہوں کہ میرے خدا کا نام یہواہ ہے۔ یہ وہ نام ہے جو خدا نے موسیٰ کو اس وقت بتایا تھا جب موسیٰ نے خدا سے پوچھا؛ خروج 3:13 اور 14 آیت

تب موسیٰ نے خدا سے کہا جب میں بنی اسرائیل کے پاس جا کر انکو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اسکا نام کیا ہے؟ تو میں انکو کیا بتاوں؟ خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔

اگر آپ نے میرا آرٹیکل "یسوع، یشوعا یا یہوشوعا” اور "کیا یشوعا (یسوع) یہواہ ہے” نہیں پڑھا تو اسکو ضرور پڑھیں آپ کا علم اس بارے میں اور بھی گہرا ہو جائے گا۔  عبرانی میں خدا نے موسیٰ کو یہ نام دیا "אהיהאשראהיה، ایح یہ- آشر- ایح یہ، Ehyeh-Asher-Ehyeh” اسکا مطلب بنتا ہے "میں جو ہوں سو ہوں” یا پھر "میں جو تھا سو تھا” یا "پھر میں جو ہونگا سو ہونگا۔” یہ الفاظ ماضی، حال اور مستقبل میں یکساں ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ آخر ہمارا خدا کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں 13:8)۔ "میں ہوں” جب بھی یشوعا نے نئے عہد نامے میں استعمال کیا (ہر جگہ نہیں) یہودیوں نے اسے پتھر مارنا چاہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو یہواہ ہی بتا رہا تھا۔  (مثال کے طور پر یوحنا 8:58) سو آخر یہ کیسے ہے کہ وہ "אהיהאשראהיה، ایح یہ- آشر- ایح یہ، Ehyeh-Asher-Ehyeh” لیکن جب ہم بولتے ہیں تو ہم "یہواہ” کہتے ہیں۔ جب خدا اپنے آپ کو پکارتا ہے تو وہ "היה، میں ہوں” کہتا ہے لیکن جب ہم اسے پکارتے ہیں تو ہم اسے "יהוה، یہواہ یعنی؛ وہ ہے” پکارتے ہیں۔

آپ کو پھر سے بتاتی چلوں کہ قدیم عبرانی "יהוה، یہواہ” میں یشوعا چھپا ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی ہم آپ کو قدیم عبرانی حروف کا چارٹ بنا کر دکھائیں گے  تاکہ آپ کو میری باتوں کی بہتر سمجھ آسکے۔ قدیم عبرانی تصاویر کے مطابق יהוה کا یہ مطلب ہے،

י – یود – ہاتھ

ה- حے – دیکھو

ו – واو- کیل

ה – حے – دیکھو

"ہاتھ دیکھو کیل دیکھو” یشوعا؛ یہواہ کے قدیم عبرانی نام میں چھپا ہوا ہے۔  ہمیں اسکا نام پاک ماننا چاہیے۔ آپ کو دس احکام میں تیسرا حکم یاد ہے۔ "تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔۔۔۔۔ (خروج 20:7)” میسیانک یہودیوں/یہودیوں نے اس حکم کی بنا پر لوگوں کو سختی سے خدا کا نام "یہواہ” لکھا دیکھ کر بھی "ادونائی” پڑھنے کا کہا ہوا ہے اور اسے "ہاشیم، Ha Shem,  وہ نام” کہنے کو کہا۔  دس احکام کے بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے  مگر اس وقت ہم صرف یہواہ کے نام کو لینے کے بارے میں غور کریں گے۔ سو کیا میرے اور آپ کے لیے خدا کو یہواہ پکارنا ٹھیک ہے؟ کلام کیا کہتا ہے اسکے بارے میں ہم کچھ آیات دیکھتے ہیں۔

صفنیاہ 3:9

اور میں اس وقت لوگوں کے ہونٹ پاک کردونگا تاکہ وہ سب خداوند سے دعا کریں اور ایک دل ہو کر اسکی عبادت کریں۔

گو کہ اس آیت میں اردو ترجمہ ” خداوند سےدعا” کیا گیا ہے لیکن عبرانی اور انگریزی میں یہ ایسے ہے۔

כִּֽי־אָ֛זאֶהְפֹּ֥ךְאֶל־עַמִּ֖יםשָׂפָ֣הבְרוּרָ֑הלִקְרֹ֤אכֻלָּם֙בְּשֵׁ֣םיְהוָ֔הלְעָבְדֹ֖ושְׁכֶ֥םאֶחָֽד׃

Then I will purify the lips of the peoples, that all of them may call on the name of the LORD and serve him shoulder to shoulder.

حزقی ایل 39:7

اور میں اپنے مقدس نام کو اپنی امت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جانینگی کہ میں خداوند اسرائیل کا قدوس ہوں۔

زبور 105:1

خداوند کا شکر کرو۔ اسکے نام سے دعا کرو۔ قوموں میں اسکے کاموں کا بیان کرو۔

یسعیاہ 42:8

یہواہ میں ہوں۔ یہی میرا نام ہے۔ میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لیے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لیے روا نہ رکھوںگا۔

یسعیاہ 52:5 اور 6

پس خداوند یوں فرماتا ہے کہ اب میرا یہاں کیا کام حالانکہ میرے لوگ مفت اسیری میں گئے ہیں؟ وہ جو ان پر مسلط ہیں للکارتے ہیں خداوند فرماتا ہے اور ہر روز متواتر میرے نام کی تکفیر کی جاتی ہے۔ یقیناً میرے لوگ میرا نام جانینگے اور اس روز سمجھیںگے کہ کہنے والا میں ہی ہوں۔ دیکھو میں حاضر ہوں۔

زبور 91:14 اور 15

چونکہ اس نے مجھ سے دل لگایا ہے اسلئے میں اسے چھڑاونگا۔ میں اسے سرفراز کرونگا کیونکہ اس نے میرا نام پہچانا ہے وہ مجھے پکاریگا اور میں اسے جواب دونگا۔۔۔۔۔۔۔

آپ اس کو کس نام سے پکار رہے ہیں۔ جب آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو آپ اپنے خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ آپ اسکو غیر قوموں میں کیسے بلند کر رہیں ہیں؟ الٹے کام کر کے اسکے پاک نام کو بدنام مت کریں۔ وہ مقدس ہے آپ اس سے جڑے ہوئے ہیں لہذا اپنے آپ کو بھی دوسروں کے سامنے پاک دکھائیں نہ صرف دوسروں کے سامنے بلکہ خدا کی نظر میں بھی۔ (احبار 20:26، 1 پطرس 1:16)

ایک اور بات جو میں یہیں واضع کرتی چلوں کیونکہ کچھ عرصے پہلے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ "ابراہام خدا کو اسکے نام یہواہ سے نہیں جانتا تھا؟” میں نے پوچھا کہ کلام میں کہاں لکھا ہے؟ انھوں نے کہا "علم نہیں” خیر میں نے کچھ آیات دکھائیں جس میں انگریزی میں لکھا تھا کہ ابراہام خدا کو یہواہ کے نام سے ہی جانتا تھا۔ (مثلاً پیدائش 13:4، 14:22، 15 باب) ان آیات میں جہاں اردو میں کلام کا ترجمہ "خداوند” کیا گیا ہے وہاں عبرانی کلام میں "یہواہ” لکھا ہے۔ کچھ عرصے پہلے میں ایک ربی کا واعظ سن رہی تھی جب ربی نے خروج 6:2 اور 3 کا حوالہ پڑھا تو میرے ذہن میں ایک دم ان جوشیلے خدا کے بندے کا سوال ذہن میں آیا۔ آپکو بھی اسکی وضاحت کر دوں۔  خروج 6:2 اور 3 میں لکھا ہے

پھر خداوند نے موسٰی سے کہا میں خداوند ہوں۔ اور میں ابراہام اور اضحاق اور یعقوب کو خدای قادر مطلق کے طور پر دکھائی دیا لیکن اپنے یہواہ نام سے ان پر طاہر نہ ہوا۔

اس آیت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہام، اضحاق اور یعقوب کو خدا کا نام یہواہ معلوم نہیں تھا مگر عبرانی کلام میں جگہ جگہ انھوں نے یہواہ کا نام استعمال کیا ہے، آخر کیا وجہ ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اپنی اولاد کا نام انکے حالات کے مطابق رکھتے تھے۔ آپ مثال کے لیے پیدائش کا 29 اور 31 باب خود دیکھ سکتے ہیں۔ ابراہام کے بارے میں تلمود بیان کرتی ہے کہ ابراہام جب جوان تھا تو اسکو بتوں کی پوجا کرنا بیوقوفی لگتی تھی۔ لہذا ایک دن اس نے اپنے باپ کے تمام بتوں کو ہتھوڑے سے توڑ کر ہتھوڑا سب سے بڑے بت پر رکھ دیا۔ جب اسکا باپ گھر آیا تو اسکے باپ نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ ابراہام نے کہا کہ تمام بت آپس میں جھگڑ پڑے مگر آخر میں سب سے بڑا بت جیت گیا۔ میں اس کہانی کی تفصیل میں ابھی نہیں جاوںگی مگر میرے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ابراہام کے باپ تارح نے اپنے بیٹے ابراہام، اسکی بیوی اور لوط کو لے کر جب کنعان کے ملک کی طرف سفر شروع کیا تو ان لوگوں کو "خداوند خدا تعالیٰ” کا صرف اس طرح سے پتہ تھا کہ یہواہ تمام بتوں/خداوں سے بڑھ کر ہے۔ وہ سب سے اعلیٰ خدا ہے۔ انھیں علم نہیں تھا کہ وہ "یکساں خدا” ہے جو کبھی بھی نہیں بدلتا جو وہ کہتا ہے پورا کرتا ہے۔  انھیں خدا کے نام کا تو پتہ تھا مگر اسکے نام کا گہرا علم نہیں تھا اسلیے خدا نے موسیٰ کو کہا کہ وہ انکو خدای قادر کے طور پر دکھائی دیا۔

ال، الوہیم، ادونائی، یہواہ یری، اتا ایل روئی وغیرہ یہ سب یہواہ کے خطاب ہیں مگر اسکا اپنا نام یہواہ ہی ہے۔ میں کسی اور مطالعہ میں خدا کے کچھ خطاب کے بارے میں تفصیل سے بیان کرونگی تاکہ آپ اسکو اپنی ذاتی دعا میں استعمال کر سکیں۔ یہ مطالعہ میں ادھر ہی ختم کرتی ہوں۔ خدا آپ سب کو برکت دے اور اپنے کلام کے علم میں اور بڑھائے۔ آمین

 تحریر: شازیہ لوئیس