عزرا 4 باب – پہلا حصہ
عزرا کی کتاب میں سے 4 باب آپ پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت محسوس کرونگی۔
یہوداہ اور بنیمین کے دشمنوں نے یہ سن کر کہ وہ جو کہ اسیر ہوئے تھے خداوند اسرائیل کے خدا کے لئے ہیکل بنا رہے ہیں تو انھوں نے ان سے کہا کہ وہ انکو بھی اپنے ساتھ خداوند کی ہیکل کی تعمیر کرنے دیں کیونکہ وہ بھی خداوند کے طالب ہیں۔ ان لوگوں کو پہلی آیت میں ہی دشمن پکارا گیا ہے کیونکہ بات تو وہ دوست بن کر رہے تھے مگر وہ انکے دوستوں میں سے نہیں تھے۔ عزرا 4:2 میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے کہا کہ شاہِ اسور اسرحدون انھیں جب یہاں لایا تو وہ تب سے خداوند کے لئے قربانی چڑھاتے ہیں۔یہ لوگ بنی اسرائیل کا حصہ نہیں تھے۔ انھیں ادھر لا کر بسانے والا کوئی اور تھا۔ ہمیں انکا حوالہ 2 سلاطین 17:24 سے 41میں ملتا ہے کہ یہ لوگ بابل اور کوتہ اور عوا اور حمات اور سفروائم کے لوگ تھے جنہیں اسرائیلیوں کی جگہ سامریہ کے شہروں میں بسا دیا گیا تھا۔ چونکہ انھیں یہوواہ خدا کا کوئی خوف نہیں تھا اسلئے خداوند نے انکے درمیان شیروں کو بھیجا اور ان شیروں نے انکے بہت سے لوگوں کو مار دیا۔ اگر آپ میرے مطالعے پڑھتے آئے ہیں تو پھر آپ نے یہ کہیں پڑھا ہوگا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس زمانے کے لوگوں کے لئے انکے خدا/دیوتا، زمین یا ملک سے جڑے تھے۔ مثال کے طور پر بابل کے لوگوں کے بت وہ نہیں تھے جن کی مصری پوجا کرتے تھے، کنعان کے ملک کے خدا فرق تھے اور موآب کی سرزمین کےبت بھی فرق تھے۔ سو ان لوگوں کی نظر میں یہ تھا کہ انھیں اپنے بتوں کی پرستش کے ساتھ ساتھ، بنی اسرائیل کے خدا کو بھی عزت دینی ہے اور انکے خداوندکے لئے بھی قربانیاں گذراننی ہیں کیونکہ وہ قوت و طاقت رکھتا ہے۔ اسلئے انھوں نے شاہِ اسور سے کہا کہ وہ بنی اسرائیل کے کاہنوں میں سے کسی کو انکے پاس بھیجے تاکہ وہ خداوند یہوواہ کے طریقوں سے واقف ہوسکیں۔ لہذا بنی اسرائیل کے کاہنوں میں سے ایک نے بیت ایل میں رہائش اختیار کی اور انھیں سکھایا کہ کیوں انھیں خداوند کا خوف ماننا چاہیے۔ اس وقت تک بنی اسرائیل کے کاہن بھی بت پرستی میں پڑ چکے تھے۔ یہوداہ کا گھرانہ تھا جو پھر بھی خداوند کے حکموں کو جانتے تھے اور اسکی شریعت پر چلتے تھے گو کہ بعد میں انھوں نے بھی خداوند کی نظر میں بدی کی تبھی وہ اسیری میں چلے گئے۔ آپ 1 اور 2 تواریخ اور 1 اور 2 سلاطین میں اسرائیل کے تمام بادشاہوں کا حوالہ پڑھ سکتے ہیں۔ یہوداہ اور بنیمین کے دشمنوں نے خداوند کے لئے قربانیاں چڑھانا تو شروع کر دیں مگر اپنے بتوں کی پرستش کرنا نہ چھوڑا کیونکہ وہ لوگ شروع سے ہی ایک سے زیادہ خداوں پر ایمان رکھتے آئے تھے۔ انکے نزدیک یہوواہ خدا ، واحد خدا نہیں تھے بلکہ انکے باقی تمام دیوتاؤں کی طرح ایک دیوتا تھے۔ رومیوں 8:7 سے 8میں لکھا ہے؛
اسلئے کہ جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہےنہ ہوسکتی ہے۔ اور جو جسمانی ہیں وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔
تبھی جب زربابل اور یشوع اور اسرائیل کے آبائی خاندانوں نے انکی بات سنی تو انھوں نے انکی مدد لینے سے انکار کر دیا انھوں نے انھیں صاف کہا کہ تمہارا کام نہیں کہ ہمارے ساتھ ہمارے خدا کے لئے گھر بناؤ بلکہ ہم آپ ہی ملکر خداوند اسرائیل کے خدا کے لئے اسے بنائینگے جیسا شاہِ فارس خورس نے ہم کو حکم کیا ہے۔
آخر کیا برائی تھی انکی مدد لینے میں؟ کام جلدی ختم ہوجاتا تو اچھا تھا، پھر اس انکار کی کیا وجہ تھی؟ شاید آپ کو یاد ہو کہ میں شروع کے عزرا کے مطالعوں میں ذکر کیا تھا کہ خداوند نے قربانی اس جگہ چڑھانے کا کہا "جس جگہ کا حکم خداوند دیں”۔ بنی یہوداہ کے دشمنوں نے شاہِ اسور کو کہہ کر کاہن کو تو بلوا لیا تھا کہ خداوند کے طریقہ و طور سیکھیں مگر حرکتیں وہ، وہ کرتے تھے جو انکو مناسب لگتی تھیں۔ انھیں اس بات کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ خداوند کا حکم تمام انسانی حکموں سے افضل ہونا چاہیے اور تمام ملاوٹ سے پاک ہو۔ تبھی اگر بنی یہوداہ نے انکی مدد لینے سے انکار کیا تھا تو صحیح کیا تھا۔ ویسے بھی انکا یہ کہنا بجا تھا کیونکہ شاہِ فارس خورس نے صرف انھی کو ہیکل کی تعمیر کا کہا تھا۔ آپ خداوند کے حکموں میں دوسروں کے حکموں کی ملاوٹ نہیں کرسکتے۔ انکے دشمنوں کی نظر میں ویسے بھی وہ "انکے (یہوداہ اور بنیمین کے) خدا” کے لئے یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ خداوند کے طور طریقے جاننے کے باوجود اور خداوند کو قربانیاں چڑھانے کے باوجود انھوں نے کبھی خداوند کو "اپنا خدا” پکارنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ آپ نے شاید کبھی پہلے یہ نہ سوچا مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم یہی سوچ کر کہ "آخر ہماری اس روایت میں کیا برائی ہے”، خداوند کے اس حکم کو باطل نہیں کر دیتے کہ "تو غیر قوموں کی روش کو اختیار نہ کرنا۔۔۔۔” ؟
بنی یہوداہ کو اگر کسی کی مدد کی ضرورت تھی تو وہ صرف اور صرف انکے اپنے خداوند یہوواہ کی۔ انکا اس طرح سے دوسروں کی مدد لینے کا انکار کرنا قابل ِ ستایش قدم تھا۔ انھیں اپنے خداوند پر بھروسہ تھا مگر انکے دشمنوں کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ انھیں رد کیا گیا ہے ۔ اگر یہوداہ اور بنیمین کا گھرانہ انھیں ہیکل کی تعمیر میں مدد کی اجازت دیتا تو کل کو وہ اسکی عبادتوں کا زبردستی حصہ بھی بن سکتے تھے اور خداوند کی ہیکل کو اپنے دیوتاؤں سے ناپاک کر دیتے اسلئے ہر لحاظ سے یہوداہ اور بنیمین کے آبائی قبیلوں کا یہ فیصلہ درست تھا۔ انکے دشمنوں نے انکی مخالفت شروع کر دی اور وہ انکو تکلیفیں پہچانے لگ گئے۔ اگر انکے دشمنوں میں خداوند کا ذرا سا بھی خوف ہوتا تو وہ یہی سوچ کر بنی یہوداہ کی مخالفت نہ کرتے کہ خداوند کی ہیکل پھر سے تعمیر کی جا رہی ہے اگر ہماری مدد نہیں بھی طلب کی گئی تب بھی ہمیں اس پر خوش ہونا چاہیے کہ خداوند یہوواہ کی ہیکل کی بنیاد پڑ رہی ہے۔وہ خداوند کی خوشی نہیں بلکہ اپنی خوشی چاہتے تھے۔ کسی علما نے انکے لئے کیا خوب کہا کہ "انکے دشمن نہ تو خداوند کے چنے ہوئے لوگوں میں تھے اور نہ ہی اسرائیل کے خداوند کی پرستش کرنے والوں میں تھے۔”
یہوداہ اور بنیمین کے ان دشمنوں نے انکے خلاف مشیروں کو اجرت دی تاکہ انکے کام میں خلل پڑے۔ انھوں نے اخسویرس بادشاہ کو شکایت لکھ کر بھیجی۔ انھوں نے ہر وہ کام کیا جس سے ہیکل کی تعمیر کا کام روکا جا سکتا تھا۔
میں نے پچھلے حصے میں لکھا تھا کہ شاید آپ ان لوگوں میں سے ہوں جس نے ابھی خداوند کو اپنا نجات دہندہ مانا ہے۔ خداوند نے آپ کو گناہ کی غلامی سے رہائی بخشی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو خداوند کا مقدِس بنائیں۔ اپنے آپ کو خداوند کا مقدِس بنانے کے اس دور میں یہوداہ اور بنیمین کے دشمنوں کی طرح آپ کے بھی دشمن کھڑے ہونگے اور اگر آپ انکی مدد لینا پسند کریں گے تو وہ آپ کی زندگی کو سچائی کی راہ سے دور لے جائینگے اور اگر آپ خداوند کے بھروسے پر ان کو انکار کریں گے جو کہ آپ کو سچائی پر چلتے دیکھتا پسند نہیں کر رہے تو وہ آپ کے دشمن بن کر آپ کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنیں گے۔ خداوند پر بھروسہ کرنا سیکھیں وہ آپ کی مدد کرینگے۔
میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی بار ہم عزرا 4 باب کا باقی مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ آپ کو حوصلہ دیں کہ آپ ہر اس شخص کو جو کہ آپ کو سچائی کی راہ سے ہٹانا چاہے انکا ر کر سکیں اور آپ پورے دل و جان سے اپنے خداوند کے راستباز حکموں پر عمل کر سکیں۔ یشوعا کے نام میں، آمین