عزرا 2 باب
ہم نے پچھلے مطالعے میں عزرا کے 1 باب پر غور کیا تھا۔ ربیوں کی تعلیم کے مطابق خورس بادشاہ کی نظر میں یہوواہ آسمان کا خدا تھا مگر زمین پر وہ صرف بنی اسرائیل میں یہوداہ کی سرزمین کا خدا تھا۔ میں اردو کی بائبل میں عزرا 3:1 میں بریکٹ میں لکھے ہوئے الفاظ دیکھ رہی تھی "(خدا وہی ہے۔)”، مجھے نہیں علم کیا آیا یہ سب اردو ترجموں کا حصہ ہے یا کہ پھر صرف میری اس اردو بائبل کے ترجمے میں ہے۔ یہ الفاظ اصل عبرانی کلام کا حصہ نہیں ہیں۔ اصل عبرانی کلام میں آیت کا ترجمہ یہاں تک اردو میں ہے (عزرا 1:3)؛
پس تمہارے درمیان جو کوئی اسکی ساری قوم میں سے ہو اسکا خدا اسکے ساتھ ہو اور وہ یروشلیم کو جو یہوداہ میں ہے جائے اور خداوند اسرائیل کے خدا کا گھر جو یروشلیم میں ہے بنائے۔
عبرانی کلام میں یہ آیت ایسے پڑھی جاتی ہے "تمہارے درمیان جو کوئی اسکے لوگوں (قوم) میں سے ہے اسکا ایلوہیم اسکے ساتھ ہو اور وہ یروشلیم کو جو یہوداہ میں ہے جائے اور بنائے "ایت” یہوواہ کے گھر اسرائیل کے خدا وہ ایلوہیم جو کہ یروشلیم میں ہے۔” میں اردو ترجمان کو چیلنج نہیں کر رہی کیونکہ میں نہیں جانتی کہ انھوں نے کیا سوچ کر اس کو بریکٹ میں ایسے درج کیا ہے مگر میری نظر میں انھوں نے یہاں خدا کے کلام میں اضافہ کیا ہے ۔ ویسے ہی جیسے کی ربیوں کی تعلیم ہے ، خورس بادشاہ کی نظر میں خدا آسمان کا بادشاہ ہے مگر اس نے اس بات کا اقرار ہرگز نہیں کیا کہ "وہی خدا ہے” ۔ خورس بادشاہ نے یہوواہ خدا کو اسکے نام سے پکارا اور ایلوہیم کہا اور اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ خداوند نے زمین کی سب مملکتیں اسے بخشی ہیں۔ اس نے خداوند کی قوم کے لوگوں کو خداوند کی ہیکل کی تعمیر کا حکم دیا تھا ۔
اب آپ کلام میں سے عزرا کا 2 باب مکمل پڑھیں۔
عزرا کے 2 باب میں ہمیں ان ناموں کی لسٹ ملتی ہے جو واپس یروشلیم اور یہوداہ میں اپنے اپنے شہر آئے۔ آپ کو انھی ناموں کی لسٹ نحمیاہ کے 7 باب میں بھی نظر آئے گی۔ سوائے چند ناموں کے باقی تمام نام ایک جیسے ہی ہیں۔ اسرائیل کی سرزمین جس کو 70 سبتوں کا آرام نہیں ملا تھا (اس بات کو جاننے کے لئے استثنا 28 باب کو دیکھیں)، 70 برس کے آرام کے بعد ایک بار پھر سے خدا کے لوگوں کو خوشی سے قبول کر رہی تھی۔ بنی اسرائیل اور یہوداہ کا گھرانہ تین گروہوں کی صورت میں اسیری میں گئے تھے۔ وہ واپس بھی تین گروہوں کی صورت میں آئے۔ پہلا گروہ جو کہ داود بادشاہ کے گھرانے کے تھے، زربابل کی قیادت میں آیا، دوسرا گروہ عزرا نبی کی قیادت میں اور تیسرا اور آخری گروہ نحمیاہ نبی کی قیادت میں واپس آیا۔ یہ تینوں سربراہ ، یہوداہ کے گھرانے کو پھر سے قائم کرنے میں اہمیت کے قابل ہیں۔ تینوں کو خدا نے خاص مقصد دیا تھا۔ زربابل نے خدا کی ہیکل کی تعمیر کا کام کروایا۔ وہ یہوداہ کے گھرانے کا امِیر تھا۔ ہمیں عزرا 1:8 میں یہوداہ کے امیر شیس بضر کا نام ملتا ہے۔ بہت سے علما زربابل اور شیس بضر کو ایک ہی انسان سمجھتے ہیں مگر یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ زربابل کا نام عبرانی نام ہے اور شیس بضر بابلی نام ہے۔ کچھ علما کی رائے میں یہ زربابل کا بابلی نام تھا۔ انکی اس سوچ کی مثال آپ کو دانی ایل نبی کی کتاب سے ملے گی کہ نبوکد نصر بادشاہ نے دانی ایل نبی کو بابلی نام بیلطشضر دیا تھا۔ 1 تواریخ 3:18 میں ہمیں شیس بضر کا نام نہیں نظر آتا بلکہ شیناضر کا نام لکھا نظر آتا ہے جو کہ زربابل کا چچا ہے۔کچھ یہودی اور میسیانک یہودی علما کی رائے کے مطابق شیناضر، شیس بضر کا ہی نام ہے جسکا تلفظ یہاں فرق ہے۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ جب شاہِ فارس خورس نے یہوداہ کے امیر شیس بضر کو خداوند کے گھر کے برتن حوالے کئے تھے تو اس وقت اسکی کتنی عمر ہو گئی اور کیا وہ اتنا لمبا سفر کرنے کے قابل تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسکی موت کی وجہ سے زربابل کو یہوداہ کے گھرانے کا امیر چنا گیا ہوگا مگر ہمیں اسکی موت کا ذکر نہیں ملتا مگر یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ زربابل یہوداہ کے گھرانے کا امِیر تھا۔ ہمیں حجی اور زکریاہ کی کتاب میں زربابل کا نام نظر آتا ہے۔ زکریاہ 4:9 میں زربابل کے لئے ایسے لکھا ہے؛
کہ زربابل کے ہاتھوں نے اس گھر کی نیو ڈالی اور اسی کے ہاتھ اسے تمام بھی کرینگے۔ تب تو جانیگا کہ رب الافواج نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔
اسیری سے واپس آئے ہوئے لوگوں میں وہ لوگ تھے جو کہ اسیری میں بنی اسرائیل کی سرزمین کے باہر پیدا ہوئے تھے مگر ان لوگوں نے یقیناً اپنے بزرگوں سے بنی اسرائیل کی سرزمین ، خداوند کی ہیکل اور اسکی شان و شوکت کا سنا ہوگا۔ ربیوں کے کہنے کے مطابق۔ عزرا پہلے گروہ کی بجائے دوسرے گروہ کے ساتھ واپس اس لئے آیا ہوگا کہ اس نے اپنا یہ وقت توریت کو سیکھنے میں گذارا ہوگا۔ کیونکہ عزرا نے ہیکل میں عبادت کے نظام کو سدھارنے میں مدد دی۔ عزرا 7:10 میں لکھا ہے؛
اسلئے کہ عزرا آمادہ ہوگیا تھا کہ خداوند کی شریعت کا طالب ہو اور اس پر عمل کرے اور اسرائیل میں آئین اور احکام کی تعلیم دے۔
اور نحمیاہ نے یروشلیم شہر کی دیوار بنانے میں قیادت کی تھی۔ ہم ان باتوں کو آگے کچھ تفصیل میں دیکھیں گے۔ اسیری سے واپس آئے ہوئے لوگوں کی کل تعداد بیالیس ہزار تین سو ساٹھ بیان کی گئی ہے ۔ آپ اس تعداد کے بارے میں ایسے سوچ سکتے ہیں کہ اسیری میں گئے ہوئے سو فیصد لوگوں میں سے صرف پانچ فیصد لوگ واپس آئے۔ باقیوں نے کیوں نہیں واپس آنے کا سوچا؟ کیا انکے دلوں میں کوئی آرزو نہیں تھی کہ خداوند کے عہد کی سرزمین پر پھر سے لوٹتے؟ ہم لوگ تو شاید ان ناموں کو اس باب میں پڑھتے ہوئے یہ سوچیں کہ آخر کیا ضرورت تھی ان ناموں کو لکھنے کی مگر میری نظر میں خداوند نے اس بات کو نوٹ کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اسکی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس نے اپنے کلام کا حصہ بنایا کیونکہ انھوں نے خداوند کو جانا اور قبول کیا اور اسکی طرف کو لوٹے کہ ہیکل کی تعمیر کر سکیں۔ زبور 144:3 میں لکھا ہے؛
ائے خداوند! انسان کیا ہے کہ تو اسے یاد رکھے؟ اور آدم زاد کیا ہے کہ تو اسکا خیال کرے؟
کچھ ایسا ہی ایوب 7:17 سے 18 میں بھی لکھا ہے؛
انسان کی بساط کیا ہے جو تو اسے سرفراز کرے اور اپنا دل اس پر لگائے اور ہر صبح اسکی خبر لے اور ہر لمحہ اسے آزمائے؟
خداوند نے تو تمام بنی اسرائیل کو موقع دیا کہ واپس بنی اسرائیل کی سر زمین کی طرف لوٹیں مگر نہیں تمام بنی اسرائیل اس بات کے لئے تیار نہیں تھے وہ بابل کی سرزمین میں بس چکے ہوئے تھے۔ ویسے ہی جیسے کہ آج کے مسیحی اسرائیل کی سر زمین سے کوئی لینا دینا نہیں رکھنا چاہتے۔ ان لوگوں نے نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز بنی اسرائیل کی سرزمین میں نہیں کرنا چاہا۔ اور ہمارے زیادہ تر مسیحی بھی ایسے ہیں کہ سچائی کو جان کر بھی انکار کرنا پسند کرتے ہیں۔
خداوند نے اپنا دل اپنے لوگوں کی طرف لگایا ہوا ہے وہ اپنے کلام کے ذریعے جو کچھ انکے لئے کہتا ہے ، اسے پورا کرتا ہے۔ ان ناموں کو درج کرکے خدا نے ان لوگوں کو سرفراز کیا جو اسکی طرف لوٹے۔ ایک اور بات جو شاید آپ نے میرے آرٹیکلز میں پڑھی ہو کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ تمام لاوی ، کاہن نہیں تھے مگر تمام کاہن لاوی ضرور تھے۔ لہذا لاوی کے قبیلے کو آپ دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو کہ کاہن تھے اور دوسرے وہ جو کہ کاہن نہیں تھے۔ تمام لاویوں کو خداوند نے اپنی خدمت کے لئے چنا تھا۔ عزرا 2:36 سے ہمیں کاہنوں کی فہرست جو کہ 4 گھرانوں کی ہے، پھرلاویوں کی فہرست اور ہیکل میں گانے والوں اور دربانوں کے فہرست دکھائی دیتی ہے اور پھر سلیمان بادشاہ کے خادموں کی اولاد۔ بعد میں انھی ناموں کی لسٹ میں آپ کو ان لوگوں کے نام بھی نظر آئیں گے جو کہ اپنے آبائی خاندان اور نسل کا پتا نہ دے سکے کہ وہ اسرائیل کے ہیں یا نہیں (عزرا 2:59 اور 60)۔ اور کچھ کہنے کو تو کاہنوں کی اولاد میں سے تھے مگر اپنی سند ڈھونڈ نہ سکیں۔ انھیں ناپاک سمجھا گیا اور کہانت سے خارج کیا گیا (عزرا 2:62)۔ شاید آپ کو یہ انکے ساتھ ناانصافی دکھائی دی ہو مگر خداوند نے اپنے کلام میں کاہنوں کے لئے کچھ خاص اصولوں کو بیان کیا تھا۔ آپ اس کے بارے میں احبار 21 اور 22 باب میں پڑھ سکتے ہیں۔ غیر قوموں میں شادی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ اسلئے ان لوگوں کے بارے میں حاکم نے یہی فیصلہ کیا کہ جب تک کوئی کاہن اوریم وتمیم لئے ہوئے نہ اٹھے تب تک یہ لوگ پاک ترین چیزوں میں سے نہ کھائیں۔ اوریم وتمیم کے بارے میں ہم خروج کے مطالعے میں زیادہ تفصیل میں پڑھیں گے۔ مگر مختصراً بیان کردوں کہ اوریم وتمیم خداوند کے برحق فیصلے کو جاننے کے لئے کیا جاتا تھا۔
آپ کو عزرا 2:58 میں "نتنیم” کا لفظ دکھائی دے گا۔ یہ نام نہیں بلکہ خادموں کا فرقہ ہے جو کہ سب سے کم تر فرقہ تھا۔ میں اسکے بارے میں معمولی سا اگلی دفعہ بیان کرونگی۔ ایک اور نام جو کہ قابل غور ہے وہ یشوع کا ہے جو کہ سردار کاہن کہلایا گیا ہے ہم اسکے بارے میں بھی آگے پڑھیں گے۔
اگلی دفعہ ہم عزرا کے 3 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ آپ کو آپ کی اصل پہچان بتائے اور آپ اسکو قبول کر سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین