خروج 17 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج کا 17 باب پورا خود پڑھیں۔

ہم نے پچھلے ہفتے خروج کے 16 باب کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ خدا نے موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ وہ من کو شہادت کے صندوق میں رکھیں۔ آپ کو شاید اندازہ ہوگیا ہو کہ یہ حکم بعد میں ملا ہوگا کیونکہ تب تک انھوں نے شہادت کا صندوق بنایا نہیں تھا۔ کلام میں بہت سے واقعات آگے پیچھے درج ہیں۔

سین کے بیابان میں  جب بنی اسرائیل آئے تھے تو  انھیں ملکِ مصر سے نکلے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا۔ وہاں سے وہ آگے رفیدیم  پہنچے اور وہاں ڈیرا کیا۔ ایک بار پھر سے انھوں نے موسیٰ کے ساتھ جھگڑا کیا کہ وہ انھیں پانی پینے کو دے کیونکہ رفیدیم میں انھیں پینے کو پانی نہ ملا۔ ایک بار پھر سے انھوں نے وہی  شکایت کی  کہ موسیٰ انھیں ملکِ مصر سے مارنے کو کیوں نکال لایا؟ موسیٰ نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اس سے کیوں جھگڑتے ہیں اور خداوند کو کیوں آزماتے ہیں ؟

بنی اسرائیل خدا کے حکم کے مطابق سفر کر رہے تھے (خروج 17:1) مگر اسکے باوجود ان پر مشکل گھڑی تھی۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ کہنے تو خدا کے حکم کے مطابق ہی چل رہے ہیں مگر انکی مشکل کی گھڑی بھی ساتھ  ساتھ رہتی ہے۔ وجہ سادہ  سی ہے۔ خداوند انھیں اپنے اوپر بھروسہ کرنا سکھا رہے ہوتے ہیں۔  معجزات بنی اسرائیل کی  زندگی کا تب سے حصہ بن گئے جب سے خدا نے موسیٰ کو انکے پاس بھیجا تھا کہ ملکِ مصر سے باہر نکال لائے۔ معجزات کا گاہے بگاہے سامنا کرنے کے باوجود بھی انکے لئے خدا پر بھروسہ قائم رکھنا دشوار تھا۔ آج کا ایک عام انسان اکثر سوچ نہیں سکتا کہ خداوند نے انکی زندگی میں کس قسم کا معجزہ کیا ہے۔ بائبل کو پڑھتے ہوئے شاید انکے ذہنوں میں آتا ہو کہ خداوند نے بنی اسرائیل کے لئے تو بہت سے معجزات کئے مگر میرے لئے کونسا معجزہ کیا ہے؟اگر خدا نے آپ کو کسی مہلک وبا کا شکار نہیں ہونے دیا یا پھر طوفان سے دوچار نہیں ہونے دیا ، یا پھر نوکری نہ ہوتے بھی کھانا مہیا کیا ہے یا پھر شدید گرمی میں ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھی پینے کو دیا ہے ،  تو وہ آپ کی بھی زندگی میں معجزات کر رہے ہیں ۔ بس آپ کبھی بنی اسرائیل کی طرح پہچان نہیں پائے کہ معجزات آپ کی بھی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ آپ کو بھی خداوند پر اعتماد رکھنا سیکھنا ہے۔

موسیٰ نے خداوند سے فریاد کی کہ وہ ان لوگوں کے لئے کیا کرے کیونکہ وہ تو اسے سنگسار کرنے کو تیار ہیں؟ وہی شخص جو کہ بنی اسرائیل کو ہر بار مشکلوں سے باہر نکالنے کے لئے خداوند کےاحکامات انکے لئے بجاتا لایا، بنی اسرائیل اس  کو ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ بنی اسرائیل تو اپنی جسمانی ضروریات کی بنا پر یہ بھی نہیں پہچان پا رہے تھے کہ کون انکا سچا ساتھی ہے اور کون جھوٹا۔ انھیں ملک مصر میں فرعون کی غلامی منظور تھی مگر موسیٰ کی قیادت میں آزادی کی زندگی   قبول نہیں تھی۔  موسیٰ نبی کو اگر خدا نے اس کام پر نہ لگایا ہوتا تو وہ شاید کب کا یہ کام چھوڑ چکا ہوتا۔ موسیٰ نے انکو کہا تھا کہ وہ کیوں خدا کو آزماتے ہیں، موسیٰ کو علم تھا کہ انکا غصہ  خدا پر ہے۔  غصہ  اور  پریشا نیاں انسان کو یہ بھلا دیتی ہیں کہ انکا دشمن  ہر بار سامنے نظر آنے والا شخص نہیں ہے۔ اسکے پیچھے وجہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔

خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے آگے ہو کر چلے اور بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے چند کو اپنے ساتھ لے اور جس لاٹھی کو اس نے دریا پر مارا تھا اسے اپنے ہاتھ میں لیتا جا۔ خداوند نے مزید اس سے کہا (خروج 17:6):

دیکھ میں تیرے آگے جا کر وہاں حورب کی ایک چٹان پر کھڑا رہونگا  اور تو اس چٹان پر مارنا تو اس میں سے پانی نکلیگا کہ یہ لوگ پیئں چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کیا۔

 چٹان کو لاٹھی مارو تو کہاں پانی بہہ نکلتا ہے ؟ مگر خدا نے بنی اسرائیل کے لئے یہ معجزہ کیا۔ پولس رسول نے 1 کرنتھیوں 10:4 میں کہا؛

اور سب نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیونکہ وہ اس روحانی چٹان  میں سے پانی پیتے تھے جو انکے ساتھ ساتھ چلتی تھی اور وہ چٹان مسیح تھا۔

چٹان انکے ساتھ ساتھ چلتی تھی؟کیا  بنی اسرائیل نے کبھی غور نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کے لئے کیا کہنا۔ انکے پاس تو بائبل نہیں تھی کہ وہ پڑھ کر بہت سی باتوں کو سمجھ سکتے مگر ہمارے پاس بائبل ہے اور بہت سی باتوں کو پڑھنے کے باوجود بھی مسیحی ان روحانی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ گنتی 33:12 سے 14 میں ہمیں ذکر ملتا ہے کہ رفیدیم سے پہلے بنی اسرائیل دو اور جگہوں سے گذرے تھے ، جہاں پر شاید پانی تھا مگر خدا نے انھیں وہاں ڈیرا جمانے کو نہیں کہا تھا۔ رفیدیم میں خدا نے انھیں رکنے کا کہا تھا۔ بنی اسرائیل کو پانی مہیا کرنے کے لئے    خداوند نے موسیٰ سے کہا تھا کہ وہ ، وہ لاٹھی لے کرجائے جس  کو اس نے دریا پر مارا تھا۔ یہاں پر سمندر کو دو ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کی جا رہی۔ لاٹھی کو موسیٰ نے دریائے نیل پر بھی مارا تھا۔   لاٹھی کو جب موسیٰ نے ملکِ مصر میں دریائے نیل پر مارا تھا تو وہ خون بن گیا تھا۔   موسیٰ کی لاٹھی عام لاٹھی تھی مگر خدا نے اسکو اپنی قوت و طاقت دکھانے کے لئے استعمال کیا۔   بنی اسرائیل کو خدا نے سین کے بیابان میں  حورب کی ایک چٹان سے پانی پلایا۔  خدا کو کلام میں چٹان پکارا گیا ہے ۔ آپ کو بہت سے حوالے ملیں گے۔ زبور 18:2 اور 31 میں لکھا ہے؛

خداوند میری چٹان اور میرا قلعہ اور میرا چھڑانے والا ہے۔ میرا خدا۔ میری چٹان جس پر میں بھروسا رکھونگا۔

کیونکہ خداوند کے سوا اور کون خدا ہے۔ ہمارے خدا کو چھوڑ کر اور کون چٹان ہے؟

خداوند نے موسیٰ کو کہا تھا کہ  خداوند حورب کی ایک چٹان پر کھڑا رہیگا جس پر موسیٰ کو لاٹھی مارنی ہے۔

یسعیاہ 53:4  سے 5میں لکھا ہے؛

تو بھی اس نے ہماری مشقتیں اٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اسے خدا کو مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اسکے ما رکھانے سے ہم شفا پائیں۔

یسعیاہ کی اس آیت میں یشوعا کی بات ہو رہی ہے جس کو نئے عہد نامے میں پتھر پکارا گیا ہے۔ موسیٰ نے لاٹھی جب دریا پر ماری تھی تو وہاں پانی خون بن گیا تھا اور جب اس نے چٹان پر ماری تو  اس سے پانی پھوٹ نکلا۔  عام مسیحیوں کو پرانے عہد نامے کی یہ باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں کہ موسیٰ  کے ذریعے خدا نے اپنی قدرت دکھائی  مگر جب یہی عام مسیحی یوحنا 1:17 کی یہ آیت پڑھتے ہیں جس میں لکھا ہے؛

اسلئے کہ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔

تو انہیں یہ بات سمجھ ہی میں نہیں آ پاتی کہ  یہاں پر یہ مراد نہیں کہ شریعت دینے والا موسیٰ نبی تھے اور شریعت میں خدا نے فضل نہیں دیا تھا مگر نئے عہد نامے میں  دیا ہے۔نہیں !  ویسے ہی جیسے کہ خدا نے اپنی قدرت کا اظہار موسیٰ کے ذریعے  چٹان سے پانی نکال کر کیا،  اس نے شریعت کی باتوں میں چھپا فضل اور سچائی یشوعا کے ذریعے ظاہر کی، وہی شریعت جو خدا نے موسیٰ کے ذریعے اپنے لوگوں کو دی تھی۔  یشوعا نے کہا تھا کہ وہ شریعت کی باتوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہے۔  میں نے آج آپ کو ان آیات میں سے دکھایا ہے کہ کیسے یشوعا کلام ہے اور اس نے کیسے توریت کی باتوں کو پورا کیا ہے، میں امید کرتی ہوں کہ آپ  کو یوحنا 1:17 کی یہ سادہ سی آیت کی بھی سمجھ آ گئی ہوگی۔

میں خروج کے 17 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ جاری رکھوں گی۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو ان باتوں کا معنی سمجھا سکے جو میں بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، یشوعا نے نام میں۔ آمین