خروج 16 باب – پہلا حصہ
آپ کلام میں سے خروج 16 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات درج کرونگی جسکی ضرورت محسوس کرونگی۔
ہم نے خروج کے 15 باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ بنی اسرائیل ایلیم کو آئے جہاں پانی کے بارہ چشمے اور کھجور کے ستر درخت تھے۔ ربی موشیٰ بن نخمان جن کا مخفف رمبان ہے، کہتے ہیں کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمیں خاص بتایا گیا ہے کہ وہاں پانی کے بارہ چشمے تھے اور کھجور کے ستر درخت تھے۔ انکے کہنے کے مطابق "مارہ” سے تو بنی اسرائیل کا صرف مختصر سا گذرنے کا ذکر ہے مگر ایلیم میں ٹھہرنے کا ذکر ہے۔ ان یہودی دانشوروں کی نظر میں 12 پانی کے چشموں سے مراد، اسرائیل کے بارہ قبیلے ہیں اور ستر سے مراد، صدر عدالت کے ستر بزرگ ہیں۔ قضاۃ 4:5 میں ہمیں دبورہ کا ذکر ملتا ہے جو کہ کھجور کے درخت کے نیچے رہتی تھی اور بنی اسرائیل اسکے پاس انصاف کے لئے آتے تھے۔ انکی نظر میں توریت کا پیغام، بنی اسرائیل کو یہ تھا کہ وہ اپنے خداوند کی نظر میں بہت اہم ہیں۔ ایلیم، ملکِ مصر اور کوہ سینا کے درمیان میں تھا۔ توریت پانے سے پہلے خداوند اپنے لوگوں کو اس مقام پر لائے تھے جہاں وہ انکو انکی اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔ ایلیم کسی جگہ کا نام نہیں ہے یہ بہت سے علما مانتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے اپنے مطالعے شروع کرنے سے پہلے بیان کیا تھا کہ کلام کی تشریح کے کتنے درجے ہیں۔ یہاں پر ایک روحانی پیغام دیا گیا ہے۔
خداوند نے اگر آپ کو بھی گناہ کی غلامی سے نجات دلائی ہے اور شیطان سے چھٹکارہ دلایا ہے تو وہ آپ کو بھی اپنی شریعت /توریت دینے سے پہلے اس بات کا احساس دلانا چاہتے ہیں کہ آپ اسکی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ اسکے چنے ہوئے لوگوں میں سے ہیں جو اسکے کہنے کے مطابق اپنی نجات کے اس سفر پر نکلے ہیں کہ ابدی زندگی پا سکیں۔
دوسرے مہینے کی 15 تاریخ یعنی بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکلے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا۔ مارہ کے پانی پر بنی اسرائیل بڑبڑائے اور اب کچھ ہی عرصے کے بعد پھر سے وہ موسیٰ اور ہارون پر بڑبڑائے۔ انکا بڑبڑانا کچھ ایسا تھا (خروج 16:3)؛
اور بنی اسرائیل کہنے لگے کاشکہ ہم خداوند کے ہاتھ سے ملکِ مصر میں جب ہی مار دئے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تم تو ہم کو اس بیابان میں اسی لئے لے آئے ہو کہ سارا مجمع بھوکا مارو۔
بنی اسرائیل کا بڑبڑانا، موسیٰ اور ہارون کے خلاف نہیں بلکہ خداوند کے خلاف تھا تبھی وہ بھول گئے تھے کہ گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر وہ دل بھر کر روٹی نہیں کھاتے تھے بلکہ ملکِ مصر کی غلامی کی شدت کی سبب سے آہ و نالہ بھرتے تھے۔
جیسے جیسے ہم خروج کے مطالعے میں آگے بڑھ رہے ہیں میں آپ سے گزارش کرونگی کہ اپنی زندگیوں کو بنی اسرائیل کی زندگی سے ملا کر دیکھیں کہ کیا آپ انکی طرح ہر تھوڑے عرصے کے بعد خداوند کے خلاف بڑبڑاتے ہیں؟ میں نے کلام سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمیشہ سے ہی یہ میری زندگی کا نور ہے۔ میں جب بھی کبھی کلام کی باتوں کو دہرا رہی ہوتی ہوں تو ہمیشہ ایک لمحے کے لئے رک کر سوچتی ہوں کہ میں اپنی روحانی زندگی میں کیسے آگے قدم بڑھا رہی ہوں۔ کیا خداوند میری آزمایش کر رہے ہیں کہ آیا میں انکی "شریعت” پر چلونگی یا نہیں؟ کیا میرے اوپر آئی ہوئی یہ آزمایش میری اپنی جسمانی خواہشات کی بنا پر ہے؟ مجھے اس آزمایش میں کیسے پورا اترنا ہے کہ میں خداوند کے خلاف گناہ نہ کروں؟
بنی اسرائیل کو میں سمجھ سکتی ہوں کہ بیابان میں رہتے ہوئے انکے لئے کھانا پینا ویسے وافر مقدار میں مہیا نہیں تھا جیسا کہ انکو پہلے تھا مگر کیا انکا یہ کہنا مناسب تھا "کہ خداوند کے ہاتھ سے ملکِ مصر میں جب ہی مار دئے جاتے۔۔۔” ؟ وہ کیوں اتنی جلدی بھول رہے تھے کہ جو خدا انھیں ملکِ مصر پر آئی ہوئی وباؤں سے بچا کر رکھ سکتا تھا اور جو خدا انکے لئے سمندر کے بیچ میں خشک راستہ نکال سکتا تھا اور جو خدا انھیں کڑوے پانی کی بجائے میٹھا پانی پلا سکتا تھا، تو اسکے لئے انکی بھوک کے وقت خوراک مہیا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوسکتی؟ اگر خدا نے انھیں مارنا ہی ہوتا تو وہ انھیں اتنی دور تک لاتے ہی کیوں؟ گذارشات پیش کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ زبان سے متعلق آپ کو کلام میں کئی حوالے ملیں گے جیسے کہ امثال 12:18 میں لکھا ہے؛
بے تامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحت بخش ہے۔
امثال 15:4 میں لکھا ہے؛
صحت بخش زبان حیات کا درخت ہے۔ پر اسکی کجگوئی روح کی شکستگی کا باعث ہے۔
متی 12:33 سے 37 میں یشوعا نے ایسے کہا؛
یا تو درخت کو بھی اچھا کہو اور اسکے پھل کو بھی اچھا یا درخت کو بھی برا کہو اور اسکے پھل کو بھی بُرا کیونکہ درخت پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ ائے سانپ کے بچو تم بُرے ہوکر کیونکر اچھی باتیں کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی منہ پر آتا ہے۔ اچھا آدمی اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں نکالتا ہے۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو نکمی باتیں لوگ کہینگے عدالت کے دن اسکا حساب دینگے۔ کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائیگا۔
کلام کو صرف پڑھ کر اور صرف خداوند پر ایمان رکھ کر انسان راستباز نہیں ٹھہرایا جاسکتا اگر اسکے ساتھ ساتھ اعمال نہیں ہیں۔ اعمال کا ایک ثبوت اسکی زبان دے دیتی ہے۔ جو دل میں بھرا ہے وہی ابھر کر باہر آجاتا ہے۔ الفاظ معنی رکھتے ہیں۔ اسلئے ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرنا سیکھیں۔ اپنی گذارشات کسی کے بھی سامنے پیش کرتے ہوئے سوچیں کہ آیا آپ کے الفاظ ایسے ہیں جو کہ آپ کے حق میں جائیں گے یا کہ آپ کے خلاف۔ میں بھی اس معاملے میں بہت اچھی نہیں رہی ہوں۔ سنورنے کی کوشش جاری ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ میں نے نجات حاصل کر لی ہے اور میں فضل کے ماتحت ہوں اسلئے الٹا سیدھا جو کچھ بھی بولتی رہونگی میری نجات مجھ سے چھنی نہیں جائے گی۔ نہیں! ایسا نہیں۔ یشوعا نے کہا کہ میں اپنی باتوں کے سبب سے راستباز یا قصوروار ٹھہرائی جاؤنگی۔ نجات حاصل کرنے کے بعد میرے لئے اپنے آپ کو خداوند کے کلام کے مطابق بدلنا لازم تھا اور ہے اور تب تک لازم رہیگا جب تک کہ میں زندہ ہوں۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
خداوند نے بنی اسرائیل کو ایک دم قصور وار نہیں ٹھہرایا۔ انکی باتوں کو نظر انداز کر کے خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ وہ آسمان سے انکے لئے روٹیاں برسائے گا۔ اور یہ لوگ نکل نکل کر فقط ایک ایک دن کا حصہ ہر روز بٹور لیا کریں کیونکہ اس سے خداوند انکی آزمایش کرینگے کہ وہ انکی شریعت پر چلینگے یا نہیں۔ شریعت یعنی توریت ابھی تک بنی اسرائیل کو نہیں دی گئی تھی۔ مگر خداوند انکی آزمایش اس آسمانی روٹی سے کرنے لگے تھے جو انھیں روز آسمان سے میسر ہونی تھی۔
ہم اپنے خروج 16 باب کے مطالعے کو اگلی دفعہ جاری رکھیں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنی زبان پر قابو رکھنا سکھائے کہ صرف اچھی باتیں نکلیں نہ کہ برائی کی، یشوعا کے نام میں۔ آمین