خروج 14 باب – دوسرا حصہ

ہم نے پچھلی دفعہ پڑھا تھا کہ خداوند اپنے لوگوں ، بنی اسرائیل کو ملک مصر سے تو نکال لایا تھا مگر فرعون نے ابھی تک انکے بارے میں سوچنا بند نہیں کیا تھا۔  ہم نے پچھلے حصے میں اپنی زندگی کی بھی کچھ روحانی باتوں پر غور کیا تھا۔  اگر ایک طرف دشمن تھا تو دوسری طرف خداوند اپنے لوگوں کے ہمراہ تھے۔ بنی اسرائیل کو خداوند نے ایک بہت شاندار لیڈر سے نوازا تھا۔ موسیٰ نے 40 سال فرعون کے گھرانے کے ساتھ ملک مصر میں گذارے تھے وہ اپنے ان دشمنوں کے طور طریقوں سے واقف تھے۔ موسیٰ نبی نے 40 سال بیابان میں بھیڑ بکریوں کو چرانے میں گذارے تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کیسے گڈریا اپنے گلے کی بہتر حفاظت کر سکتا ہے۔ اسے اپنے گلے سے خطرے کے اس موقع پر تحمل سے پیش آنا تھا تاکہ اسکا گلہ اسکی آواز کو سن کر صحیح طرف رخ موڑتا۔

ایک اچھے لیڈر کی طرح موسیٰ نے ان آوازوں کو نظر انداز کیا جو اسکے حوصلے پس ماندہ کر سکتے تھے۔ اگر آپ کو خداوند نے لیڈر چنا ہے تو آپ کی اپنی زندگی میں بھی وہ لمحے آئیں گے جب آپ کو ان تمام آوازوں کو نظر اندازکرنے کی ضرورت پڑے گی جو کہ آپ کے لئے حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں۔ موسیٰ کی طرح آپ کو بھی لوگوں کی باتوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے خداوند کی آواز پر توجہ دینے کی  ضرورت ہے۔  موسیٰ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اسکے لوگ خوفزدہ ہیں اسلئے اس نے انکے حوصلے بلند کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اسکی ایک  وجہ یہ بھی  تھی کہ موسیٰ کو علم تھا کہ یہوواہ خدا کوئی معمولی خدا نہیں ہے اس نے خداوند کے مصر میں کئے اُن معجزوں کو  مصریوں کی فوج  کو  دیکھ کر ایک ہی پل میں نہیں بھلا دیا تھا۔ موسیٰ کا بھروسہ اب بھی خدا پر پختہ تھا۔  اس نے بنی اسرائیل  سے کہا (خروج 14:13 سے 14):

تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا ڈرو مت۔ چپ چاپ کھڑے ہوکر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو جو وہ آج تمہارے لئے کریگا کیونکہ جن مصریوں کو تم آج دیکھتے ہو انکو پھر کبھی ابد تک نہ دیکھو گے۔ خداوند تمہاری طرف سے جنگ کریگا اور تم خاموش رہوگے۔

آپ اگر میرے آرٹیکلز پڑھتے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ میں اپنے آرٹیکلز میں ہمیشہ یسوع کا اصل نام استعمال کرتی ہوں جو کہ "یشوعا” ہے کیونکہ اسکا اصل نام ہی صحیح معنی رکھتا ہے۔ عبرانی کلام میں لفظ "نجات”  ، یشوعا، (ישוע، Yeshua ) ہے۔ گو کہ جملے میں لکھتے ہوئے اس لفظ کو   ذرامختلف لکھا جاسکتا تاکہ صحیح جملہ بن سکے۔ میں اوپر دی ہوئی  اس آیت کو   عبرانی کلام میں بھی دکھا رہی ہوں؛ ויאמר משה אל־העם אל־תיראו התיצבו וראו את־ישועת יהוה אשר־יעשה לכם היום כי אשר ראיתם את־מצרים היום לא תסיפו לראתם עוד עד־עולם:

 اس آیت میں عبرانی میں "ایت یشوعات، את־ישועת” لکھا ہوا ہے۔ جی "یشوعا”  جو کہ نجات ہے، لکھا ہے۔ میں نے اپنے شروع کے آرٹیکلز میں بیان کیا تھا کہ کلام کی تشریح کے کتنے درجے ہیں۔ میں "رمیز” کے درجے کو دھیان میں رکھ کر آپ کو اس آیت  کی تشریح بیان کر رہی ہوں۔  میں نے اپنے روت کی کتاب کے مطالعے میں خاص اس لفظ "ایت، את” کو بھی بیان کیا تھا۔ میں نے اپنے  چند دوسرے آرٹیکلز میں "تاوو، ת” پر بھی بات کی تھی کہ یہ "عہد” کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کو حنین بھائی کے بنائے ہوئے عبرانی حروف کے چارٹ میں تمام عبرانی حروف  کا معنی  مل سکتا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر انکے اس آرٹیکل کو دیکھنا چاہیں تو اس لنک کو کلک کریں ، https://backtotorah.com/wp-content/uploads/2014/04/Shema-Small.pdf  آپ کو اس آرٹیکل کے آخری  صفحے پر یہ چارٹ نظر آئیگا۔

مکاشفہ کی کتاب میں   مکاشفہ 1:8 اور 21:6 میں آپ کو اردو کلام میں جہاں الفا اور اومیگا لکھا نظر آئیگا وہ عبرانی کلام میں الیف ،א اور تاوو،ת ہے۔  عبرانی کلام میں جن آیات میں اور جن لفظوں کے ساتھ "ایت” لکھا نظر آتا ہے، یہودی اور میسیانک یہودی جانتے ہیں کہ اس کی خاص اہمیت ہے۔  موسیٰ، بنی اسرائیل کو خداوند کی  نجات  یعنی یشوعا کے کام کو دیکھنے کو کہہ رہے تھے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کے لئے یہ شاید تھوڑا بہت شش و پنج کا باعث ہوکہ یشوعا تو تب موجود نہیں تھے موسیٰ کو کیا پتہ تھا؟  حقیقت یہی ہے کہ یشوعا  ابتدا سے ہی وجود رکھتے ہیں۔ انھی باتوں کو گہرائی میں جان کر یوحنا نبی نے اپنی انجیل میں بیان کیا کہ "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا (یوحنا 1:1)”  اور اگر آپ  انھی آیات کو مکاشفہ کے ان حوالوں کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں گے تو خود ہی واضح ہو جائے گا کہ یشوعا کا وجود ابتد سے ہے۔ وہی اول و آخر ہیں۔  وہی عہد جو خداوند نے اپنے لوگوں سے کیا تھا وہ اسے پورا کر رہے تھے۔  وہی نجات (یشوعا) جو بنی اسرائیل کی زندگیوں میں  مصر کے وقت سے تھی وہی نجات(یشوعا) آج بھی ہماری زندگیوں میں ویسے ہی مستعدی سے کام کر رہی ہے اگر ہم اس پر بھروسہ رکھیں تو۔

خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ وہ کیوں خداوند سے فریاد کر رہا ہے، بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ آگے بڑھیں اور موسیٰ اپنی لاٹھی  اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھائے اور اسے دو حصے کرے۔ آپ نے شاید اس پر بہت سے اچھے پیغام پہلے بھی سنیں ہونگے  جو کہ اپنی جگہ پر ٹھیک سنائی دیتے ہونگے جیسے کہ موسیٰ کا  خدا سے فریاد کرنا اور خدا کو موسیٰ کو کہنا کہ قوت تو اسکے ہاتھوں میں ہے اسلئے اسے قدم اٹھانا چاہیے وغیرہ وغیرہ ، مگر میں اس میں چھپے پیغام کو بیان کرنے لگی ہوں۔  ہم جانتے ہیں کہ یشوعا نے اپنے بارے میں یوحنا  5:46 سے 47اور 39 میں کہا؛

کیونکہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اسلئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ لیکن جب تم اسکے نوشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا  کیونکر یقین کروگے؟

تم کتاب مقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔

میں نے پہلے بھی اپنے آرٹیکلز میں بیان کیا ہے کہ یشوعا کے زمانے میں اگر یشوعا کے شاگردوں کے پاس کلام تھا تو وہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ تھا جسکو تناخ کہا جاتا ہے۔ پرانا عہد نامہ یشوعا کی گواہی دیتا ہے۔ ایسا میں نے نہیں یشوعا نے کہا ہے۔  آپ کو شاید اس بات کا بھی علم ہو کہ استثنا18:15 میں خداوند نے کہا کہ وہ موسیٰ کی مانند ایک نبی برپا کریگا۔   جب خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ وہ لاٹھی اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھائے تو موسیٰ کا بڑھایا ہوا  ہاتھ یشوعا کو پیش کر رہا تھا۔ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کو  لکڑی پر ٹانگا گیا اسکے ہاتھوں کو پھیلا کر کیل ٹھونکے گئے۔ ہم اردو میں تو  "لکڑی” نہیں بلکہ صلیب پڑھتے  ہیں مگر یونانی کلام میں اصل لفظ لکڑی  ہی لکھا  ہے۔  موسیٰ نے جب اپنا ہاتھ بڑھایا تو اسکے ہاتھ میں لاٹھی تھی یعنی کہ  لکڑی۔۔۔ اسکو اپنے ذہنوں میں تصور کریں۔   یشوعا موسیٰ کی مانند نبی جو اپنے لوگوں کے لئے نجات کا باعث بنا۔ خداوند، جسکی نجات کا کام بنی اسرائیل نے دیکھا۔

 موسیٰ کا سمندر پر ہاتھ بڑھانے سے پانی دو حصوں میں بٹ گیا اور بنی اسرائیل  سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چلکر دوسری طرف نکل گئے جبکہ پانی انکے دائیں اور بائیں طرف دیوار کی طرح تھا۔ خداوند کا فرشتہ جو انکے آگے آگے چلتا تھا وہ بادل کا ستون انکے سامنے سے ہٹ کر انکے پیچھے جا ٹھہرا۔ مصریوں اور بنی اسرائیلیوں کے درمیان میں یہ بادل کا ستون تھا۔  پہلے تو مصریوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کی کی مگر جب رات کے پچھلے پہر خداوند نے آگ اور بادل کے ستون سے مصریوں کے لشکر پر نظر کی اور انکے لشکر کو گھبرا دیا تو انھوں نے واپس بھاگنے کی کی۔ خداوند نے انکی رتھوں کے پہیوں کو نکال ڈالا کہ وہ چل نہ پائیں۔ مصریوں کو علم ہوگیا تھا کہ ایک بار پھر سے خداوند اسرائیلیوں کے طرف سے ان کے ساتھ جنگ پر ہیں۔ خداوند نے موسیٰ کو ایک بار پھر سے اپنا ہاتھ بڑھانے کو کہا اور صبح ہوتے ہی سمندر واپس اپنی اصلی قوت میں آگیا۔ مصری سمندر کے بیچ ہی میں غرق ہوگئے۔ خداوند نے بنی اسرائیل کے دشمن مصریوں کو یوں انکے آگے سے ہمیشہ کے لئے ختم کر ڈالا۔ خداوند ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

خروج 14:31 میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت دیکھی جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی  اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اسکے بندہ موسیٰ پر ایمان لائے۔  میں اکثر اپنی بارے میں سوچتی تھی کہ میں کتنی احمق ہوں کہ خداوند کی قدرت کو اپنی زندگی میں جب  تک کام نہیں کرتا دیکھتی تو اس پر ایمان نہیں  لاتی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مجھے اسکے معجزات کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ اس پر ویسے ہی بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ مبارک ہے وہ جو کہ بغیر دیکھے ایمان لایا (یوحنا 20:29)۔ شاید آپ کو علم نہ ہو کہ میرے بچوں میں سے ایک بیٹی اپاہج ہے (وہ میری بہت بڑی نعمت ہے اور مجھے اسکو اپاہج پکارنا اچھا نہیں لگتا مگر چونکہ آپ سے  مخاطب ہوں جو شاید  مجھے نہیں جانتے اسلئے ایسا لکھ رہی ہوں۔) مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں،” فکر نہ کرو شازیہ! خداوند پر ایمان رکھو، خداوند معجزہ کریگا”۔  مجھے پورا یقین ہے کہ خداوند معجزہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور درحقیقت خداوند نے میری بیٹی کی زندگی میں معجزہ کیا بھی ہے۔ مگر میں لوگوں کو اکثر کہتی ہوں "کیا میں خداوند پر ایمان صرف  اسلئے رکھوں کہ وہ میری بیٹی کی زندگی میں کوئی معجزہ کر دیں؟” میرے بارے میں یہی حقیقت میری پوری زندگی رہنی ہے  کیونکہ یہ میری دعا بھی ہے اپنے لئےکہ اگر یہوواہ پاک خداوند میری بیٹی کی زندگی میں کوئی معجزہ نہیں بھی کرینگے تب بھی میں ان پر ایمان رکھونگی کیونکہ یہی میرے لئے مناسب ہے۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرتی کہ ہماری زندگی میں جب خداوند معجزے کرتے ہیں تو ہمارا ایمان اس پر اور بھی پختہ ہوتا ہے مگر کوشش یہ کریں کہ خداوند پر ایمان  صرف اسلئے نہ ہو کہ وہ معجزہ کر سکتے ہیں بلکہ اسلئے ہو کہ یہوواہ پاک   قابل ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ کا ایمان یہوواہ پاک پر ہو اور آپ کی زندگی میں کوئی معجزہ نہ ہو  🙂 ۔

میں اپنے اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ خداوند سے آپ کے لئے دعا ہے کہ آپ اس پر اپنے ایمان کو قائم رکھ سکیں چاہے معجزے ہوں یا نہ ہوں، یشوعا کے نام میں۔ آمین