(دعائے ربانی (تیرہواں حصہ

پچھلی دفعہ ہم نے  "برائی” پر ایک نظر ڈالی تھی۔  یتزر ھ را اور یتزر ھ توؤ، دونوں ہمارے اپنے اوپر منحصر ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیسے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔  یہودی/میسیانک یہودی  رواج کے مطابق ایک دعا مانگتے ہیں  یتزر ھ را  پر غالب آنے کے لیے۔ میں اسکا ترجمہ لکھ رہی ہوں؛

یتزر ھ را پر غالب آنے کی دعا؛

بابرکت ہے تو یہواہ ہمارے خدا، کائنات کے بادشاہ جو کہ ہماری آنکھوں سے نیند اور ہماری پلکوں سے  غنودگی ہٹاتا ہے۔ یہواہ ہمارے خدا، ہمارے باپ دادا کے خدا، تیری مرضی ہو کہ ہم تیری توریت کو جانیں (عادی ہو جائیں)   اور تیرے حکموں سے جڑے رہیں۔ ہمیں گناہ کے ہاتھ میں نہ جانے دے، نا ہی مغروریت اور  خودسری کے ہاتھ، نہ ہی آزمائش کے ہاتھ اور نہ ہی شرمناکی کے ہاتھ اور نہ ہی بدی ہم پر حکمرانی کرے۔

اس میں جہاں بدی لکھا ہے وہ یتزر ھ را ہے۔ مجھے اس دعا میں یہ دعا اچھی لگتی  ہے کہ ہم اسکی مرضی کے مطابق اسکی توریت کو جانیں اور اسکے حکموں سے جڑے رہیں۔ جب کبھی ہمارا اپنا رجحان برائی کی طرف ہوتا ہے تو خدا ہمیں اپنے احکام یاد دلاتا ہے تاکہ ہم صحیح   فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ زکریاہ 4:6 میں ہے؛

۔۔۔کہ نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے رب الافواج فرماتا ہے۔

خدا بھی آپ کی روح سے مخاطب ہوتا ہے تاکہ آپ صحیح راہ پر رہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں  "بد” کے بارے میں۔

"بلکہ برائی سے بچا۔”

یونانی زبان میں "برائی” کا لفظ کلام میں  "پونیروس، Poneros ” لکھا ہوا ہے اور یہی لفظ  یوحنا 17:15 میں بھی استعمال ہوا ہے مگر اردو میں "شریر” لکھا ہوا ہے۔

یوحنا 17:15

میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ یہ کہ اس شریر سے انکی حفاظت کر۔

یشوعا ہمارا سردار کاہن ہے  اور سردار کاہن  جیسے ہیکل میں خدا سے اسرائیل کے لیے دعا کرتا تھا ویسے ہی یشوعا نے ہمارے لیے یہ دعا کہی۔ یہ اس مشکل سوال کا جواب ہے جو اکثر غیر مسیحی پوچھتے ہیں کہ اگر یشوعا خدا ہے تو اس نے خدا سے دعا کیوں کی؟ میں ابھی اسکی تفصیل نہیں بیان کر رہی مگر سوچا کہ آپ کو اس  کے بارے میں چھوٹا سے جواب سے دوں۔

اوپر دی گئی آیت کی طرح ویسا ہی” پونیروس” کا استعمال افسیوں 6:16 میں بھی ہوا ہے ؛

اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔ جس سے تم اس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو۔

اور بھی آیات ہیں مگر ان آیات کو مدنظر رکھ ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یشوعا نے نہ صرف ہمیں برائی؛  اپنی برائی بلکہ” شریر سے بچا ” کی بھی دعا مانگنا سکھائی ہے۔ افسیوں 6 کی گہرائی میں   ہم ابھی نہیں جائیں گے مگر ایک بات ضرور سیکھیں گے۔  افسیوں کا 6 باب ہمیں خدا کے سب ہتھیار باندھنے کو کہتا ہے تاکہ ہم ابلیس کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔ گو کہ ان آیات سے لگتا ایسا ہے کہ جنگ میں لڑنے والے ہتھیاروں کی بات ہو رہی ہے مگر پرانے عہد نامے کے مطابق جنگ پر نکلتے وقت کاہن عہد کا صندوق اٹھائے آگے ہوتے تھے۔ پولس نے وہی لباس پہننے کو کہا ہے تاکہ ابلیس کا مقابلہ کر سکیں۔ جیسے میں نے پہلے بھی کہا اسکا تفصیلی مطالعہ ہم پھر کبھی کریں گے  ۔  ابھی آپ کلام کی ان آیتوں کو دیکھیں؛

2 کرنتھیوں  10 باب 3 سے 5

کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں مگر جسم کے طور پر لڑتے نہیں۔ اسلئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں۔ چناچہ ہم تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔

ہماری لڑائی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے اسی طرح سے ہمارے ہتھیار بھی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہیں۔  خدا نے مجھے آپ کو کوئی عام ہتھیار نہیں دیا ہے  اس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے   تاکہ ہم شیطان کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں بلکہ اس پر غالب آ سکیں۔

گو کہ شیطان کو عبرانی میں "ھا –   سطان” کہتے ہیں "ھا” کا مطلب انگلش کا "The” ہے۔ (اسکو یاد رکھنا  میرا نہی خیال کہ آپ کے لیے مشکل ہوگا۔) مگر "را ” کا بھی بہت استعمال ہوا ہے۔ را،  Ra  مصر کے خداوں میں سے ایک خدا تھا  جسکو سورج دیوتا جانا جاتا تھا۔ میں جب دعائے ربانی کی اس آیت کو واضح کرنے کے لیے "را” کے بارے میں پڑھ رہی تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے کہ یشوعا ہمیں سورج دیوتا سے بچا نے کی بات کر رہا ہے۔ اگر آپ  "را” کی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھیں گے تو آپ کو اسکے سر پر سورج نظر آئے گا ۔ ہمارے مسیحی بہن بھائی انجانے میں سورج دیوتا کی پرستش کو کلام  کا حصہ بنا کر خدا کے سچے حکموں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ آج خدا آپ پر اس کا بھید کھو ل رہا ہے اور آپ کو  ان میں سے نکلنے کو کہہ رہا ہے۔ سچائی کو سن کر اسکو قبول کرنا آپ کے اپنے اوپر ہے۔ سچائی کو بیان کرنے کے لیے خدا نے مجھے چنا ہے اور میں آپ پر یہ سچائی کھول کر اپنا کام کر رہی ہوں۔  خدا آپ کو مجبور نہیں کر رہا بلکہ یہ فیصلہ اس نے آپ کے اپنے حوالے کیا ہوا ہے۔

 میں دعائے ربانی کا مطالعہ یہیں ختم کرتی ہوں۔  اگلی بار ہم ایک نئے موضوع کا مطالعہ کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے اور اس سچائی کو قبول کرنے کی ہمت دے جو کہ آپ کو  آزاد کرتی ہے (یوحنا 8:32)۔ آمین




(دعائے ربانی  (بارہواں حصہ

پچھلی بار ہم نے آزمائش اور امتحان کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا آپ نے کبھی خدا سے گلا کیا ہے کہ آخر کوئی برائی کا خاتما کرنے کے لیے کیوں نہیں کچھ کرتا یا کیا آپ نے کبھی کسی کو تنگی میں دیکھ کر یہ سوچا ہے کہ کوئی اس انسان کی مدد کرے۔ میں نے امتحان پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ خدا کو ابرہام اور اسکے دوسرے انبیا کی طرح کہہ سکتے ہیں "میں حاضر ہوں۔” کیوں کہ اس نے آپ کو اسی مقصد کے لیے چنا ہے کہ جو کام آپ سوچتے ہیں کہ دوسرا کرے وہ آپ کے ذمے ہے۔ اگر میں اور آپ یہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو پھر کون اٹھائے گا؟ اور اگر ابھی نہیں تو پھر کب؟ آپ اور میں ہر اایک انسان کی مدد نہیں کر سکتے مگر کسی ایک کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ خدا نے جو کام آپ کو سونپا ہے اسکو پورا کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔

آج ہم بات کرتے ہیں  "بلکہ ہمیں برائی سے بچا۔”

لوقا کی انجیل میں یہ جملہ نہیں ہے مگر متی کی انجیل میں یہ موجود ہے۔ آخر یشوعا نے کس قسم کی برائی سے بچانے کی دعا سکھائی؟ اپنی جسمانی خواہشات کی برائی یا کہ پھر شیطان سے؟ میری طرح آپ بھی یہی سمجھتے آئیں ہونگے کہ اس میں صرف  شیطان سے بچانے کی بات ہو رہی ہے۔

عبرانی زبان میں برائی کے لیے ” רע، را، Ra ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور یہ لفظ کلام میں  سب سے پہلے پیدائش 2:9 میں نیک وبد کی پہچان کے درخت  میں نظر آتا ہے۔  اور ہمیں علم ہے کہ اسی درخت کا پھل آدم اور حوا نے کھایا تھا۔  عبرانی زبان میں  ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسکو "یتزر  ھ را، יצר הרע، Yetzer HaRa  ” کہتے ہیں۔ اسکا مطلب  ہے "برائی کی طرف رحجان یا جھکاؤ” اسی کا الٹ ہے "یتزر  ھا توو،     יצר הטוב Yetzer HaTov, ” اسکا مطلب ہے "اچھائی کی طرف رجحان یا جھکاؤ”۔

پیدائش 6:5 میں لکھا ہے

اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اسکے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔

اور یرمیاہ 17:9 میں کہا گیا ہے کہ ؛

دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لا علاج ہے۔ اسکو کون دریافت کرسکتا ہے۔

آپ نے سنا ہی ہو گا کہ لوگ کہتے ہیں کہ” دل کی بات سنو” مگر خدا کی نظر میں ہمارا دل لاعلاج ہے  کیونکہ ہمارے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا کچھ پیغام آپ کو زبور 14 اور رومیوں 3 میں بھی نظر آئے گا جس کے مطابق کوئی راستباز یا نیکو کار نہیں، کوئی سمجھدار نہیں،  کوئی خدا کا طالب نہیں، کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔  مگر آخر کیوں؟  لوگ اکثر کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے (سچ ہے!) لوگ اسکے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور چونکہ اس نے ہمیں چنا ہے اس لیے چاہے اگر کوئی برائی بھی کرتا ہے  تو وہ انسان خدا کی مرضی سے کرتا ہے!!

  مجھے ابھی بھی یاد ہے کافی سال پہلے مجھے کسی نے کہا کہ "دیکھو جی  یہوداہ اسکریوتی کو خدا نے چنا تھا کہ یشوعا کو پکڑوائے تو آپ یہ کیوں کہہ رہی ہیں کہ وہ صحیح انسان نہیں تھا، آخر اس نے وہی کیا جو کلام میں کہا گیا تھاَ؟” آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ جو گناہ کرتے ہیں وہ  خدا آپ سے کرواتا ہے یا آپ کی اپنی دلی خواہش ہے۔   "یتزر  ھ را”

کو ہم یہوداہ اسکریوتی کی مثال میں ہی دیکھ لیتے ہیں کہ آخر اس نے جو یشوعا کو پکڑوایا کیا وہ اسلیے تھا کہ چونکہ خدا نے پیشن گوئی کی تھی اور اسکی یہوداہ کے لیے یہی مرضی تھی اور اسی مرضی کی بنا پر چاہے جو کچھ بھی ہو جائے یہوداہ اسکریوتی پھر بھی آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوگا؟ جیسا کہ کچھ سوچتے ہیں۔

  یوحنا 12 باب میں بیان ہے کہ جب  مریم نے یشوعا کے پاوں پر قیمتی عطر انڈیلا تو یہوداہ اسکریوتی نے کہا یہ عطر بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا۔ اسکے بعد لکھا ہے ؛

اس نے یہ اسلئے نہ کہا کہ اسکو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اسلیے کہ چور تھا اور چونکہ اسکے پاس انکی تھیلی رہتی تھی اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ (یوحنا 12:6 )

یہوداہ کہنے کو تو یشوعا کا شاگرد تھا مگر اسکو ہمیشہ پیسوں کا لالچ رہتا تھا تبھی شیطان نے اسکو اکسایا کہ یشوعا کو پکڑوائے۔(یوحنا 13) شیطان جب  ہم سےبات چیت شروع کرتا ہے تو  وہ ہمیں ہماری دل کی خواہش کے مطابق اکسا کر گناہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔  حوا کا حوالہ یاد ہے جس کے بارے میں ہم نے کچھ دن پہلے بات کی تھی؟ شیطان تب تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ ہم اسکو اپنا ہاتھ نہ دیں۔ یہوداہ کے اسی لالچ نے اسکو یشوعا کو پکڑوانے پر مجبور کر دیا ۔ یوحنا 13:27 میں لکھا ہے کہ شیطان اس میں سما گیا جب کہ اسی باب کی 2 آیت میں لکھا ہے کہ ابلیس یہوداہ اسکر یوتی کے دل میں ڈال چکا تھا کہ اسے پکڑوائے۔

مجھ سے جو بحث اس بارے میں کر رہے تھے وہ  اعمال 1:16 کی آیت کو لے کر  بات کر رہے تھے۔ اگر آپ نے میرے آرٹیکل آزمائش کے بارے میں پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ شیطان کو بھی کلام کا علم ہے مگر یشوعا نے شیطان کی ہر بات کا جواب کلام سے ہی دیا تھا۔ اسی طرح سے گو کہ کلام میں لکھا ہے  کہ یہوداہ کے بارے میں "نوشتہ کا پورا ہونا ضرور تھا۔۔۔” مگر ساتھ ہی میں پرانے عہد نامے میں  خروج 20:13 میں لکھا ہے؛

” تو خون نہ کرنا۔”

یہوداہ نے یہ تو قبول کر لیا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور اس نے پیسے واپس بھی مقدس میں پھینک دیئے مگر اس نے اپنے آپ کو پھانسی دے ڈالی۔(متی 27:5)   یتزر ھ را؛ اسکا اپنا برائی کی طرف رجحان آخر میں اسکی موت بن گیا۔  خدا نے قائن کو کہا تھا ؛

پیدائش 4:6 اور 7

اگر تو بھلا کرے تو کیا مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تو اس پر غالب آ۔

ایسی ہی آیت رومیوں 6:14 میں ہے؛

اسلئے کہ گناہ کا تم پر اختیار نہ ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ  فضل کے ماتحت ہو۔

گناہ آپ کا اور میرا مشتاق ہے مگر ہمیں اسکو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا ہے کیونکہ اگر ہم نے یہوداہ اسکریوتی کی طرح گناہ کو اپنا اختیار دے دیا تو شیطان ہم میں سما جائے گا۔

میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم  کرتی  ہوں اسکے بارے میں میں مزید اگلے آرٹیکل میں بیان کروں گی۔  خدا آپ کو برائی سے بچائے۔ آمین۔




(دعائے ربانی (گیارہواں حصہ

گو کہ اس حصہ میں، میں "بلکہ برائی سے بچا” پر بات کرنا چاہتی تھی مگر خدا چاہتا ہے کہ میں آپ کو آزمائش اور امتحان میں فرق بھی بیان کروں۔  میں نے زیادہ وضاحت آزمائش کی کی ہے لیکن امتحان کے بارے میں زیادہ اس لیے نہیں بات کر رہی تھی کہ دعائے ربانی میں آزمائش کا ذکر ہے نہ کہ امتحان کا مگر خدا جانتا ہے کہ اس گروپ میں اسکے کونسے لوگ اسکے دیے ہوئے امتحان سے گزر رہیں ہیں اور انہیں تھوڑی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پچھلے دو آرٹیکل میں  میں ایک آیت بار بار لکھ چکی ہوں ۔ ہم پھر اس آیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے بھی کہا لفظ آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

اس آیت میں  آزمائش سے مراد  امتحان ہے۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا کہ خدا ہمیں آزمائش میں نہیں ڈالتا بلکہ وہ ہماری اپنی خواہشات ہیں  جو گناہ کی دلدل میں دھکیلتی  ہیں اگر ہم انکو قابو میں نہ رکھیں۔ مگر امتحان ہمیں ہمارے ایمان میں اور مظبوط کرتا ہے جب ہم اس امتحان کو پاس کر لیں۔ خدا کافی دنوں سے میرا دھیان بار بار ابراہام اور اضحاق کی طرف دلا رہا  تھا اور کل رات بھی جب میں کلام پڑھ رہی تھی تو پھر سے ابراہام اور اضحاق کا حوالہ نظر آیا۔  پیدائش 22:1 میں لکھا ہے؛

ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمااور اس سے کہا ائے ابرہام! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔

آپ اس کہانی کو پیدائش 22 میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کل کا آرٹیکل یاد ہو تو میں نے ذکر کیا تھا کہ آزمائش کا ایک لفظ  "נִסָּ֖ה، نسہ” ہے۔ نیچے دی ہوئی عبرانی آیت میں آپ یہ لفظ خود تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ اسی لفظ کا استعمال   پیدائش 22:1 میں ہوا ہے۔

וַיְהִ֗י אַחַר֙ הַדְּבָרִ֣ים הָאֵ֔לֶּה וְהָ֣אֱלֹהִ֔ים נִסָּ֖ה אֶת־אַבְרָהָ֑ם וַיֹּ֣אמֶר אֵלָ֔יו אַבְרָהָ֖ם וַיֹּ֥אמֶר הִנֵּֽנִי׃

ابرہام کو خدا نے کہا کہ  اپنے اکلوتے بیٹے اضحاق کو جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک جا اور وہاں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاوں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ ابرہام نے خدا کی بات مانی اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیکر اس جگہ گیا جہاں خدا نے اسے سوختنی قربانی چڑھانے کو کہا تھا۔ اضحاق اس وقت چھوٹا بچہ نہیں تھا جیسے کہ فلموں میں دکھاتے ہیں۔ اسکے بارے میں تفصیل سے پھر کبھی بیان کروں گی۔  تیسرے دن جب دور سے ابرہام نے اس جگہ کو دیکھا تو اس نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں اور یہ لڑکا وہاں جا کر سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئینگے۔ اس نے لکڑیاں اضحاق کو دیں اور چھری اور آگ خود پکڑ یں راستے میں اضحاق نے اس سے پوچھا کہ "برہ کہاں ہے؟” ابرہام نے کہا "خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لیگا۔ ابرہام نے قربان گاہ بنائی اس پر لکڑیاں رکھیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اسے قربانگاہ  پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ جب اس نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے  تب خداوند کے فرشتے نے اسے آسمان سے پکار کر کہا ائے ابرہام ائے ابرہام! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ خدا نے کہا تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلااور نہ اسے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا  کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اسلئے تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ بعد میں ابرہام نے جب مینڈھا دیکھا جو جھاڑی میں اٹکا ہوا تھا تو اس نے اپنے بیٹے کی جگہ اس مینڈھے کی سوختنی قربانی چڑھائی۔

یہودی/میسیانک یہودی ہر ھفتے کلام کے خاص حصے پڑھتے ہیں  جو کہ توریت ور انبیا سے ہوتے ہیں تاکہ پورا کلام 54 ہفتوں میں ختم کر سکیں۔ میں انکے بارے میں تفصیل سے پھر کبھی بیان کروں گی۔ میسیانک یہودی ان حوالوں میں نئے عہد نامے کا حوالہ بھی شامل کرتے ہیں۔   "عقیدہ، Akedahעֲקֵידָה”توریت کا وہ حصہ ہے جو یہودی لوگ خاص یوم  تیروعہ ، نرسنگوں کی عید پر پڑھتے ہیں۔  یوحنا 1 باب میں لکھا ہے کہ ابتدا میں کلام تھا۔۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا۔  میسیانک یہودی یہ مانتے ہیں کہ جیسے ابرہام نے اضحاق کی قربانی دینی چاہی ویسے ہی خدا نے یشوعا کی قربانی دی۔ مطلب یہ "عقیدہ” یشوعا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو ہمارا کلام ہے وہ مجسم ہوا ہے۔ "خدا نے کہا”   اور پیدا کیا جیسے بار بار آپ پیدائش کے پہلے باب میں پڑھتے ہیں۔  مجھے نہیں پتہ کہ میں آپ کو سمجھا پا رہی ہوں یا نہیں مگر ان باتوں کی تفصیل میں ابھی نہیں بیان کروں گی۔

خدا نے جیسا ابرہام کا امتحان لیا ویسے ہی وہ کبھی کبھی ہمارے ایمان کا امتحان لیتا ہے ۔ خدا ، ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور نہیں کرتا  اس نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اسکو قبول کریں اور اسکے تابع ہوں۔ ابرہام  اور اضحاق کی کہانی پر بات کرتے ہوئے میں نے اکثر پادری صاحبان کو سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ابرہام نے اضحاق کو کہا کہ "خدا خود اپنے واسطے سوختنی قربانی کا برہ مہیا کرے گا” تو وہ اپنے اس ایمان کا اظہار کر رہا تھا کہ خدا اسکے بیٹے کی قربانی  کی جگہ برہ ضرور مہیا کرے گا۔ پادری صاحبان غلط نہیں کہتے  مگر میں جب یہ حوالہ پڑھتی ہوں تو مجھے ہمیشہ اس بات کا خیال آتا ہے کہ جب وہ جوانوں کو کہہ رہا تھا  کہ "سجدہ کر کے واپس  لوٹ آئینگے” تو تبھی سے اسے علم تھا کہ خدا اسکے اکلوتے بیٹے کو ضرور سلامت رکھے گا۔

جب خدا نے ابرہام کو آزمانے کے لیے پکارا تو اس نے کہا "הִנֵּֽנִי، حن-نائی Hineni,” جسکا مطلب ہے "میں حاضر ہوں۔”  یہی الفاظ یسعیاہ، موسیٰ اور سموئیل نے بھی استعمال کیے جب خدا نے انہیں پکارا۔  شاید آج خدا آپ کا امتحان لے رہا ہے کیا آپ ابرہام، موسٰی، سموئیل اور یسعیاہ کی طرح اسے  "حن-نائی، میں حاضر ہوں” کہہ رہے ہیں یا کہ پھر آپ کو سموئیل کی طرح نہیں پتہ کہ جو آپ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے۔  کیا آپ خدا سے بات کر کے اسکی بات پر عمل کرنا چاہیں گے ویسے ہی جیسے ابرہام ، موسٰی ، یسعیاہ اور سموئیل نے کیا۔  اب کی بار جب آپ خدا کی آواز سنیں تو سموئیل کی طرح کہیں "ائے خداوند فرما کیونکہ تیرا بندہ سنتا ہے۔۔۔۔(1 سموئیل 3:9)”

خدا نے ایوب کو بھی امتحان میں ڈالا تھا کیونکہ خدا کو اس پر فخر تھا کہ "زمین پر اسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا  اور بدی سے دور رہتا ہو کوئی نہیں ۔” شیطان کو پورا اعتماد تھا کہ جس دن اسکے پاس دنیا کی دولت، بچے اور کاروبار ختم ہو جائے گا  اور جسم بیماری کی وجہ سے تکلیف میں ہوگا تو وہ خود خدا کو لعنت ملامت کرے گا۔ شیطان کو خدا نے اجازت دی تھی کہ بےشک ایوب کو آزمائے مگر ساتھ میں خدا نے یہ بھی کہا  "اسکی جان محفوظ رہے۔” شاید ایوب کی طرح خدا کو آپ پر ویسے ہی فخر ہے کہ آپ شیطان کی طرف سے آئی ہوئی تمام تکلیفوں کے باوجود خدا کو ہی مانیں گے۔  جب ایوب اپنی آزمائش پر پورا اترا تو خدا نے اسے پہلے سے زیادہ برکت دی۔ آپ بھی حوصلہ رکھیں کیونکہ اگر آپ کی ابھی تکلیف بہت زیادہ ہے تو خدا نے آپ کے لیے اجر بھی بہت بڑا ہی رکھا ہے۔

میری آپ کے لیے دعا ہے کہ خدا آپ کو آپکے اس امتحان میں پورا اتارے اور کامیابی دے۔ آمین




(دعائے ربانی (دسواں حصہ

پچھلے آرٹیکل میں ہم نے  "آزمائش” کی بات کی تھی۔ اگر آج آپ کو لگتا ہے کہ آپ بھی آزمائش سے گزر رہیں ہیں تو یاد رکھیں کہ پولس نے 1 کرنتھیوں 10:13 میں کہا؛

"تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دےگا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔”

نواں حصہ میں ہم نے دیکھا کہ جب شیطان نے یشوعا کو آزمایا تو اس نے ہر آزمائش کا جواب کلام سے دیا۔ کلام آپ کا ہتھیار ہے جس کو آپ اپنی آزمایش میں استعمال کر سکتے ہیں۔ عبرانی 2:18 میں لکھا ہے؛

"کیونکہ جس صورت میں اس نے خود ہی آزمائش کی حالت میں دکھ اٹھایا تو وہ انکی بھی مدد کر سکتا ہے جنکی آزمائش ہوتی ہے۔”

آپ کو اپنی آزمائش میں مدد صرف اور صرف کلام سے مل سکتی ہے۔یشوعا نے متی 13 میں بیج بونے والی کی تمثیل دی جب یشوعا کے شاگردوں نے اس سے اس تمثیل کا مطلب پوچھا تو یشوعا نے جواب میں کہا "جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اسکے دل میں بویا گیاتھااسے شریرآکر چھین لےجاتاہے۔ یہ وہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ اور جو پتھریلی زمین  میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور اسے فی الفور خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔ لیکن  اپنے اندر جڑنہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتا ہے۔ اور جو جھاڑیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دنیا کی فکر اور دولت کو فریب اس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا کوئی تیس گنا۔(متی 13:18 سے 23)”

آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

آپ کو اپنی پڑھائی کے دنوں میں امتحان دینا یاد ہی ہوگا J بس اسکو بھی ایک طرح سے ویسا ہی سمجھ لیں۔ خدا کے کلام کا استعمال اپنی زندگی میں روزانہ کریں۔  عبرانی میں آزمائش کو "נסה، Nasahنسہ” کہا جاتا ہے۔  جب میں عبرانی زبان میں دعائے ربانی پر نظر ڈال رہی تھی تو آزمائش کے لیے مجھے عبرانی میں ایک اور لفظ بھی نظر آیا جسکو   "מסה، Massahمسہ” کہتے ہیں۔ خروج 17:7 میں جس جگہ اسرائیلیوں نے خدا کی انکے بیچ موجودگی کا امتحان لیا اس جگہ کا نام بھی یہی لفظ "مسہ” ہے۔  قدیم عبرانی میں

נ– نسل/بیج

ס– کانٹا (کانٹا نما تصویر)

ה– ظاہر ہونا

تصویریں دیکھتے ہوئے مجھےایسا لگ رہا تھا  کہ جیسے یہ میری اور آپ کی اپنی (نسل) کی ان خواہشات کو ظاہر کر رہا ہے جو کانٹے کی طرح ہم سے جڑی ہیں۔  ہمیں اپنی جسمانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے روز خدا سے سہارا مانگنے کی ضرورت ہے کہ "ہمیں آزمائش میں نہ لا۔” مسہ میں اسرائیلیوں نے خدا کا امتحان لیا کیونکہ وہ پیاسے تھے وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی خدا انکے درمیان ہے۔  מ، کا قدیم عبرانی میں مطلب "پانی” ہے۔ مسہ یا پھر لفظ نسہ، خدا مجھے اور آپ کو آزمائش میں نہ لائے۔

خدا نے چاہا تو کل ہم "بلکہ برائی سے بچا ” پر بات کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے۔ آمین۔




(دعائے ربانی  (نواں حصہ

"اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔”

اس مطالعے میں ہم صرف "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر بات کریں گے۔

خدا ہمیں خود نہیں آزماتا کیونکہ یعقوب 1:13 سے 15 میں لکھا ہے؛

"جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔”

یشوعا کو علم تھا کہ ہم پر آزمائشیں آئینگی اسلیے اس نے  اس طرح دعا مانگنے کو کہا تاکہ خدا ہمیں آزمائش سے بچا سکے۔ آزمائش ہماری اپنی جسمانی خواہشات سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم اپنی بلاوجہ کی جسمانی خواہشات کو قابو میں نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور کر دے گی اور وہی گناہ ہماری موت کا باعث بن سکتا ہے۔ یعقوب  1:2 سے 4 میں یعقوب نے کہا؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

جب ہم اپنی دنیاوہ خواہشات کو قابو پانا سیکھ لیتے ہیں تو ہم روحانیت میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں ۔

آپ کو علم ہوگا کہ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کو ابلیس نے آزمایا وہ بھی تب جب اسکو بھوک لگی۔ اگر میری طرح کبھی آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا ہے کہ آخر کار جب ہم یشوعا کو خدا کہتے ہیں اور کلام کہتا ہے کہ خدا بدی سے  آزمایا نہیں جا سکتا تو کیونکر یشوعا کو ابلیس نے آزمایا۔ اگر آپ نے میرا آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی زمین پر آنے کی؟” نہیں پڑھا تو اسکو فیس بک کے اس پیج پر تلاش کرکے ضرور پڑھیں۔ اب ہم بات کرتے ہیں کہ آخر یشوعا کیوں آزمایا گیا تھا۔ میں ابھی اس آرٹیکل میں ان چالیس دنوں کی بات نہیں کروں گی بلکہ صرف ابلیس کا یشوعا کو آزمانا بیان کروں گی۔  اگر آپ رومیوں کا 5 باب اور اکرنتھیوں 15  پڑھیں تو آپ جانیں گے کہ پولس (اسکا اصلی نام عبرانی میں شاؤل ہے۔) نے یشوعا کو دوسرا یا  پچھلا آدم کہا ہے۔ پولس نے ذکر کیا کہ آدم کے گناہ کے سبب سے موت آئی اور پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔

 یوحنا  2:16 آیت میں  تین قسم کی دنیاوی  خواہشات کا بیان ہے؛

کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خوہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے۔

یوحنا اس آیت میں واضح کر رہا ہے کہ جسمانی خواہش،  زندگی کی شیخی اور آنکھوں کی خواہش وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔ جیسے شیطان نے عورت کو ورغلایا  تھا  کچھ اسی قسم کی آزمائشات وہ  یشوعا پر بھی  لایا۔ ہم ان تین آزمائشوں کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں مگر اس سے پہلے میں پیدائش 3:6بھی دکھاتی چلوں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں؛

عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اسکے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔

1-      جسم کی خواہش؛

(متی 4:3) اور آزمانے والے نے پاس آکر اس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔

جب سانپ نے عورت کو بہکایا تھا تو اس نے اس سےشکی انداز میں پوچھا "۔۔۔کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ (پیدائش 3:1) اوپر دی آیت میں بھی شیطان جانتے بوجھتے یشوعا کو کہہ رہا ہے "اگر تو خدا کا بیٹا ہے۔” یشوعا بیابان میں تھا جہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا  شیطان اسلئے یشوعا کو جانتے بوجھتے اپنی قوت کا استعمال کرکے پتھر کو روٹیاں بنانے کو کہہ رہا تھا کیونکہ وہ بھوکا تھا۔ حوا کو بھی جب اس نے بہکایا تو "عورت نے دیکھا کہ درخت کھانے کے لیے اچھا ہے۔” پہلے آدم نے اپنی جسمانی خواہش کو قابو میں نہ کیا اس نے اپنے آپ کو خدا کا حکم یاد نہ دلایا مگر یشوعا نے فوراً کلام کا حوالہ دیا اور کہا "لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہ جیتا رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ نکلتی ہے۔(متی 4:4) پرانے عہد نامے میں یہ حوالہ استثنا 8:3 سے ہے۔

2-      زندگی کی شیخی؛

پیدائش کے 3 باب میں جب شیطان نے عورت کو بہکایا تو اس نے کہا "تم ہرگز نہ مرو گے۔بلکہ خدا جانتا ہےکہ جس دن تم اسے کھاوگے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤگے۔

شیطان نے جب یشوعا کو ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے آزمایا تو اس نے کہا "اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔(متی4:6)

 شیطان کو خدا کی باتوں کا علم مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے۔  اس نے جب عورت کو خدا کی مانند بننے کا ذکر کیا  تو وہ تھوڑا بہت سچ ہی کہہ رہا تھا  (پیدائش 3:22)اور ا سلئےحوا نے جب دیکھا کہ عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس نے پھل میں سے لیا۔ جب شیطان نے جانا کہ یشوعا اسکا مقابلہ کلام کی باتوں سے کر رہا ہے تو اس نے کلام(زبور 91) کا استعمال کرکے اسکو پھر سے آزمانا چاہا مگرساتھ ہی پھر سے یشوعا نے اسکو کلام کا ایک اور حوالہ دیا (استثنا 6:16) جس میں کہا  گیا ہے "تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔”  پہلا آدم خدا کے حکموں کو بھلا کر خدا کی مانند بننے کی سوچ رہا تھا مگر یشوعا جانتا تھا کہ خدا نے تو انسان کو اپنی صورت پر ہی بنایا تھا۔

3-      آنکھوں کی خواہش؛

شیطان نے آخر میں یشوعا کو ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں اور انکی شان و شوکت دکھا کر کہا اگر تو مجھے جھک کر سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دونگا۔ (متی 4:8 سے 9)مگر یشوعا نے کہا ائے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے (استثنا 6:13)کہ تو  خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔

حوا نے دیکھ کر کہ پھل خوشنما ہے ؛ گناہ کرنے کا سوچ لیا مگر یشوعا نے جان کر کہ شیطان کیا چاہتا ہے اسکو اپنے سے دور ہونے کا حکم دیا۔  شیطان کا ارادہ شروع سے ہی خدا کے تخت کو چھیننے کا تھا اور یہ جان کر کہ اب یشوعا  زمین پر اپنا اختیار لینے واپس آیا ہے جو خدا نے آدم کو دی تھی؛  اسکو  تمام شان وشوکت  دکھا کر ویسا ہی کرنا چاہا جو اس نے آدم کے ساتھ کیا تھا۔ مگر شکر یہواہ کا کہ یشوعا  شیطان کی چال میں نہیں آیا۔

شیطان جب ہمیں  خدا میں بڑھتا دیکھتا ہے تو ہمیں  گناہ کرنے پر اکساتا ہے۔ وہ ہماری جسمانی خواہشات کو مدنظر رکھ کر ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم گناہ کریں اور خدا سے دور ہو جائیں۔ ہم شیطان پر ویسے ہی قابو پا سکتے ہیں جیسے یشوعا نے کیا مطلب ہر آزمائش کا مقابلہ کلام سے کریں جو ہمیں صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ کلام کا مطالعہ کریں تاکہ آپ آزمائش میں نہ پڑیں۔

 ہم دعائے ربانی کا باقی مطالعہ اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔ خدا مجھے اور آپ کو ہر قسم کی دنیاوی آزمائشوں سے بچا کر رکھے۔ آمین




(دعائے ربانی (آٹھواں حصہ

میں نے دعائے ربانی کے ساتویں حصہ میں یوم کفارہ کا ذکر کیا تھا۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس دن خاص اپنے گناہوں کا اقرار کیا جاتا ہے اور توبہ کر کی جاتی ہے۔ اگر آپ کہنے کو تو مسیحی ہیں مگر معافی دینا یا معافی مانگنا آپ کے لیے مشکل ہے تو آپ کس قسم کے مسیحی ہیں؟ کیونکہ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ہمیں خدا سے معافی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب ہم دوسروں کو معاف کریں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں بھول جانا کہ کسی نے آپ کے ساتھ کیا کیا تھا، بھی معافی ہی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر آپ نے دل سے معاف نہیں کیا ہے تو بھولنا بھی مشکل ہو جاتا ہے خاص طور پر جب انسان کا آمنہ سامنہ اس سے ہو جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو یا آپ نے انھیں۔ خدا ہمارے گناہ معاف کرتا ہے اور انھیں یاد نہیں رکھتا  (یسعیاہ 43:25 اور عبرانیوں 8:12).

جب تک انسان کے دل میں کڑواہٹ، خلش، نفرت اور بغض یا عداوت بھری رہی رہتی ہے اسکا دوسرے کو معاف کرنا مشکل ہوتا ہے تبھی تو افسیوں 4:26 ، 27 اور 31 آیات میں کہا گیا ہے؛

غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔ ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دور کی جائیں۔

گو کہ اردو کا ترجمہ کہتا ہے کہ "غصہ تو کرو” مگر انگلش میں ہے "غصہ میں گناہ نہ کرو۔” رومیوں 12:19 میں لکھا ہے؛

ائے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دونگا۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جتنا زیادہ آپ اپنے زخم کو کریدتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ خراب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے زخموں کو کریدیں مت بلکہ ویسے ہی جیسے نرس یا ڈاکٹر آپ کے زخموں کو دوائی لگا کر اور پٹی باندھ کر بالآخر ٹھیک کر دیتے ہیں؛ آپ اپنے زخم خدا کو دکھائیں وہ آپ کے زخموں کا علاج خود کرے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نشان رہ جاتا ہے جو انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے مگر وہ نشان اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا کہ اصل چوٹ تکلیف دہ ہوتی ہے۔

اگر آپ کے دل میں کسی خلاف خفگی ہے یا آپ اس سے انتقام کا سوچ رہے ہیں تو یہ سب کچھ خدا کے حوالے کر دیں۔ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کے دل سے اس خفگی یا کڑواہٹ یا غصہ کو نکال کر اپنا اطمینان دے۔ جس نے آپ کو دکھ دیا ہے اسکے لیے دعا کریں کہ خدا اسکو صحیح راہ پر لائے تاکہ وہ نجات پائے کیونکہ کلام میں لکھا ہے کہ خدا شریر کی موت پر خوش نہیں ہوتا۔ دعا مانگیں کہ اگر وہ انسان صحیح راستے پر نہیں چلنا چاہتا تو خدا اس سے خود بدلہ لے/دے۔ یوحنا 15:5 میں لکھا ہے؛

۔۔۔۔۔۔کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔

رومیوں 7:15 سے 25 آیات میں پولس کہتا ہے کہ جو نیکی وہ کرنا چاہتا ہے کر نہیں پاتا اور جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اسے کر لیتا ہے، آخر کون ہے جو اسے چھڑائے۔ اس آیت کے انگلش ترجمے میں لکھا شکر ہے خدا کا جو مجھے یشوعا کی وجہ سے رہائی دیتا ہے۔ آپ ان آیات کو خود پڑھ سکتے ہیں مگر اردو ترجمہ اس آیت کو ذرا مختلف انداز میں بیان کرتا اس لیے اسکا ترجمہ میں نے انگلش سے اردو میں آپ کے لیے کیا ہے۔ آپ اور میں اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتے مگر خدا اپنے کلام کے ذریعے ہماری ضرور مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنی خودغرضی سے نکل کر روحانی زندگی زمین پر بسر کریں۔ یاد رکھیں کہ خدا نے آپ کے گناہ معاف کیے ہیں۔ 2 پطرس 1:9 میں کہا گیا ہے؛

اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ اندھا ہے اور کوتاہ نظر اور اپنے پہلے گناہوں کے دھوئے جانے کو بھولے بیٹھا ہے۔

زبور 25:11 میں داود بادشاہ نے کہا؛

ائے خداوند! اپنے نام کی خاطر میری بدکاری معاف کردے کیونکہ وہ بڑی ہے۔

میں اردو کی بائبل سے آیتیں لکھتے ہوئے نوٹ کر رہی تھی کہ جہاں پر عبرانی کلام میں "یہواہ” استعمال ہوا ہے اکثر اوقات وہاں اردو بائبل میں "خداوند” لکھا ہوا ہے ویسے ہی جیسے کہ کچھ یہودی/میسیانک یہودی عبرانی میں "یہواہ” لکھا دیکھ کر بھی "ادونائی” پڑھتے ہیں۔ خیر! اوپر دی ہوئی آیت میں "خداوند” کی جگہ "یہواہ” لکھا ہوا ہے اور داود بادشاہ خاص خدا کو اسکا نام لے کر اسکے نام کی خاطر معاف کرنے کو کہہ  رہا ہے۔ اگر آپ نے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے اور نہیں جانتے کہ کیسے دعا مانگیں تو آپ یہ زبور  25 اپنی دعا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

اس آیت میں "معاف” کا عبرانی لفظ "סלח ، سلاح، Slehah”  گو "ח، خ” کی بھی آواز بنتی ہے مگر סלח بولتے ہوئے "خ” کی آواز ذرا کم سنائی دیتی ہے۔ اگر آپ عبرانی حروف کا چارٹ دیکھیں تو قدیم عبرانی میں סלח ایسے ہے؛

ס – سماخ – سہارا دینا/ حفاظت کرنا

ל – لا مد – سیکھانا / چرواہے کی لاٹھی کو بھی ظاہر کرتا ہے

ח – خیتھ – باہر کرنا یا جدا کرنا

اگر آپ کو ان حروف کو مطلب تھوڑا سا چارٹ سے مختلف لگے تو یہ مت سوچیں کہ اردو کا عبرانی حروف کا چارٹ صحیح نہیں۔ ان حروف کے کچھ اور بھی مطلب ہیں جو کہ اس چارٹ میں درج نہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر زبان میں جملے کی ترتیب تھوڑی مختلف ہو سکتی ہے۔ סלח کا گہرا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ کا چرواہا آپ کو سہارا دیتا ہے اور آپ کو جدا کرتا ہے (دوسروں سے)۔ جدا کیوں کرتا ہے؟ امثال 22: 24 اور 25 میں لکھا ہے؛

غصہ ور آدمی سے دوستی نہ کر اور غضبناک شخص کے ساتھ نہ جا۔ مبادا تو اسکی روشیں سیکھے اور اپنی جان کو پھندے میں پھنسائے۔

خدا کا کلام انسان کو کامل بناتا ہے۔ میرا اور آپکا چوپان جانتا ہے کہ کن لوگوں سے ہمیں جدا کر کے وہ ہمارے کردار کو بہتر کر سکتا ہے۔ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہمیں باقی لوگوں سے الگ رکھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ صرف تب تک کرتا ہے جب تک کہ آپ دوسرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائیں۔ اور پھر آپ کو اور مجھے تو خدا نے اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے۔

زبور 4:3

جان رکھو کہ خداوند نے دیندار کو اپنے لئے الگ کر رکھا ہے۔ جب میں خداوند کو پکارونگا تو وہ سن لیگا۔

اگر ہم اسکا کلام اپنے دل میں رکھ لیں گے تو ہم اسکے خلاف گناہ نہیں کریں گے (زبور 119:11) کیونکہ اسکا کلام ہمیں ہمیشہ غلط کام کرنے سے روکے گا۔

 "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔” کے بارے میں اپنے مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اور خدا نے اگر مجھے موقع دیا تو جلد ہی دعائے ربانی کے اگلے جملے "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر آرٹیکل پوسٹ کروں گی۔

خدا آپ کو ہمت دے تاکہ آپ اپنے دشمنوں کو معاف کرکے خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکیں۔ آمین۔




(دعائے ربانی (ساتواں حصہ

"جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

میرے لیے،   کلام کے اس جملے پر عمل کرنا سب سے دشوار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکو بولنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر ساتھ میں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اگر میں نے اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا تو میرے لیے سب کچھ بے فائدہ ہے۔ کیونکہ یعقوب 1:22 سے 24 میں یہی تو لکھا ہے؛

لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو اور اس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر چلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ میں کیسا تھا۔

قدیم زمانہ میں شیشہ دھات کا بنا ہوتا تھا عام طور پر پیتل کا۔ کلام کے مطابق پیتل فیصلے/عدالت/سزا کی علامت ہے۔  جیسے کہ جب خدا نے موسیٰ کو سانپ سے ڈسے لوگوں کو بچانے کے لیے پیتل کا سانپ بنانے کو کہا تھا اور قربانی کا مذبح بھی پیتل کے خول سے منڈھا گیا تھا)۔ لہذا اوپر کی آیت کے مطابق یعقوب پیتل کے بنے شیشے کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر آپکا نام خدا سے جڑا ہے (مسیحی، مسیح سے) تو جب میں اور آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ کلام کو خالی سننے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اس پر عمل نہیں کر رہے۔ مجھے علم تھا کہ میں خدا کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جتنا دشوار کام لوگوں کو معاف کرنا ہے وہ صرف وہی انسان جان سکتا ہے جس پر بہت بری بیتی ہو۔ مگر یشوعا نے خود ہمارے لیے مثال چھوڑی جب اس نے اپنے سولی چڑھانے والوں کو معاف کردیا۔ شاید آپ کے لیے بھی لوگوں کو معاف کرنا مشکل ہو مگر اگر آپ یشوعا کے پیروکاروں میں سے ہیں تو جیسے اس نے کیا ویسا ہی آپ کو بھی کرنا ہے۔

جب پطرس یشوعا کے پاس آیا یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کو کتنی بار معاف کرے تو یشوعا نے اس سے کہا سات دفعہ کے ستر بار۔ آپ متی 18:21 سے 35 آیات خود کلام میں پڑھیں۔ میرے بڑے بیٹے نے ایک دن مجھ سے مذاق میں کہا "مام سات دفعہ کے ستر بار معاف کرنے کے بعد مجھے کسی کو معاف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یشوعا کا یہی حکم تھا۔” میں نے اس سے کہا پہلی بات یہ کہ میرا نہیں خیال کہ آپ نے کسی کو 490 بار معاف کر دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اتنی بار معاف کر کر کے تو انسان کی ویسی ہی معاف کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔

متی کی اس تمثیل کے مطابق ایک مالک نے اپنے اس قرضدار نوکر کو جس نے 10 ہزار توڑے ادا کرنے تھے معاف کر دیا کیونکہ اس نے منت کی کہ اسے معاف کر دیا جائے مگر جیسے ہی وہ قرضدار باہر نکلا تو اسکو اپنا ایک وہ قرضدار نظر آیا جس نے اسکا 100 دینار لیا تھا مگر واپس نہیں کیا تھا۔ اس آدمی نے اپنے اس قرضدار کو بغیر کوئی مہلت دیے پکڑ کر قید میں ڈال دیا۔ جن لوگوں نے یہ دیکھا وہ بہت غمگین ہوئے اور انھوں نے مالک کو بتا دیا۔ اس مالک نے اپنے اس نوکر کو بلایا اور کہا ائے شریر نوکر! میں نے وہ سارا قرض تجھے اس لیے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسے میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا۔ لہذا مالک نے اس قید میں ڈال دیا جب تک کہ وہ سارا قرض نہ دے ڈالے۔ ساتھ ہی میں یشوعا نے یہ کہا کہ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گا اگر تم اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرو۔

ہمارا مالک، خدا؛ اگر ہمارے اُس سے معافی مانگنے پر ہمیں معاف کرتا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ سب کو معاف کریں جس نے بھی ہمارے خلاف گناہ کیا ہے کیونکہ ہم تبھی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔

 افسیوں4:32

اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔

یہ ایک چھوٹا سا حوالہ تھا معاف کرنے پر تاکہ ہم معافی پاسکیں۔ احبار 23 میں خداوند کی عیدوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک عید کو یوم کیپور یا یوم کفارہ کہا جاتا ہے۔ عبرانی لفظ "کفار، כּפרKaphar,” کا مطلب ہے "ڈھانکنا، درگزر کرنا، معاف کرنا، کفارہ دینا یا تلافی دینا”۔ اس کے بارے میں تفصیل سے میں پھر کبھی لکھوں گی مگر ابھی تھوڑا سا اسکے بارے میں بیان کر دوں۔ ہر سال عبرانی کیلنڈر کے مطابق خدا نے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا دن منانے کو کہا۔ یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی نظر میں یہ ایک بہت ہی پاک دن ہے۔ اس دن لوگ کوئی کام نہیں کرتے بلکہ روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ ساتھ میں وہ ویسے ہی جیسے یشوعا نے متی 5:23 سے 24 میں کہا،وہ اپنے بھائی/جاننے والوں کی شکایت دور کرتے ہیں اور دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ دن خاص عبادت میں گزارتے ہیں اور یہواہ کا شکر کرتے ہیں۔ آپ احبار 23 میں اس کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں۔

گو کہ عبرانی دعائے ربانی میں "کفار” کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے مگر چونکہ مجھے اس دن کی اہمیت کا علم ہے اس لیے میں آپ کو بتانا چاہتی تھی۔ انسان خدا سے معافی کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے مگر بعد میں قربانی چڑھانے کو حکم دیا گیا تھا۔ یشوعا ہمارے لیے قربانی کا وہ برہ تھا جو ہمارے گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔ اسلیے ہم اسکے نام میں دعا کو ختم کرتے ہیں تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ ہمارے قربانی کے برہ  (یشوعا)کی وجہ سے ہماری سنی گئی ہے۔ اگر ہم توبہ کریں تو خدا مجھے اور آپ کو اپنے بیٹے کے نام میں معاف کرتا ہے ۔

ہم دعائے ربانی پر اپنا باقی مطالعہ جاری رکھیں گے۔ خدا آپ سب کو بہت برکت دے اور آپ کے کلام کے علم میں اور اضافہ کرے۔ آمین




(دعائے ربانی (چھٹہ حصہ

 پچھلی دفعہ ہم نے”روٹی” کی بات کی جس کو عبرانی میں "لخم” کہتے ہیں۔ گو کہ اردو میں بیت لحم نام ہے مگر عبرانی میں بیت لحم کو بیت لخم ہی کہتے ہیں۔ اسرائیل میں کوئی ایک بیت لخم نہیں تھا بہت سے تھے کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں ذخیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ مگر جب یشوعا کی پیدائش کی پیشن گوئی کی گئی تو یہ کہا گیا "بیت لحم یہوداہ”۔

 یوحنا 6:31 سے 58 آیات میں یشوعا نے ساتھ میں "من” کی بھی بات کی جسکا ذکر ہمیں خروج 16 میں ملے گا۔ اگر آپ کو علم ہو کہ من وہ روٹی تھی جو پرانے عہد نامے میں خدا نے بنی اسرائیل کو بیابان میں کھانے کو مہیا کی تھی۔ اور یشوعا نے اپنے بارے میں یوحنا 6 باب یہی کہا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی روٹی ہے جو انسان کو ابدی زندگی بخشتی ہے۔ انگلش میں من کو "مانا” کہا جاتا ہے جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے مگر اسکا عبرانی تلفظ "من ہو” بنتا ہےجسکا مطلب ہے "یہ کیا ہے” کیونکہ جب بنی اسرائیل نے اسکو بیابان میں زمین پر دیکھا تو یہی پوچھا "من” یہ کیا ہے؟

قدیم عبرانی میں "מן ” عبرانی حروف مم اور نون سے لکھا جاتا ہے اور قدیم عبرانی تصویری لکھائی میں ایسے ہے۔ (اگر آپ کو اس سے بہتر لفظ کا علم ہے تو ضرور مجھے بتائیں تاکہ میں وہی استعمال کروں کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ قدیم عبرانی تصویر نما تھی، لیکن اردو میں کیا خاص لفظ اسکے لیے ہے یہ مجھے علم نہیں اسلیے میں تصویری لکھائی استعمال کر رہی ہوں)۔

מ – کا مطلب بنتا ہے "پانی”

ן – کا مطلب بنتا ہے "بیج” (یا اردو زبان میں نسل جیسے کہ پیدائش 3:15 میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

خروج 16 میں من کا ایسا ہی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ زمین پر چھوٹی چھوٹی گول پالے کے دانے کی مانند تھی جو کہ اوس کی بیچ میں تھا۔جب اوس سوکھی تو انکو من نظر آیا۔ جو بنی اسرائیل نے دیکھا اسکو من وعن ویسے ہی قدیم عبرانی زبان میں بیان کیا۔ اگر آپ نے میرا عید فسح کا آرٹیکل جو میں نے افیکومن پر لکھا تھا پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے بے خمیری روٹی کا ذکر کیا تھا اور بیان کیا تھا کہ کیسے عید فسح کی رسم میں "متزا” کا کھانا یشوعا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اب میں آپ کو "متزا” کا قدیم عبرانی میں مطلب بیان کرتی ہوں؛

متزا – מַצָּה

מַ– قوی/طا قتور (یہ مم کا ایک اور معنی ہے)

צָּ – تلاش کرنا یا خواہش کرنا

ה – ظاہر کرنا/دیکھنا

اور اگر میں متزا کا مطلب جملے میں لکھو تو یہ بنے "قوی/طاقتور (جسکی تمہیں) تلاش/خواہش ہے، ظاہر ہوا/دیکھایا گیا۔

من بھی روٹی کے لیے تھا اور متزا بھی۔ من چونکہ آسمان سے اتری تھی مگر متزا  زمین کی روٹی تھی اسلیے من کو عہد کے صندوق میں رکھا گیا تھا۔ مگر من کو خدا نے متزا میں ظاہر کیا مطلب کہ آسمانی روٹی، زمینی روٹی کے طور پر۔ یہواہ – آسمانی باپ، یشوعا- جسمانی وجود میں۔

 کل میں گنتی 11 باب پڑھ رہی تھی۔ خدا نے من بیابان میں اپنے لوگوں کو کھلایا مگر انھوں نے بڑبڑانا شروع کر دیا کہ ہم نے گوشت کھانا، ہمیں مصر کی مچھلی یاد آتی ہے، کھیرے، خربوزے، پیاز اور لہسن۔ وہ بھول گئے تھے کہ مصر میں وہ غلامی میں تھے۔ انکو غلامی کی تکلیفیں بھول گئی تھیں اور جو روٹی خدا انھیں مفت میں کھلا رہا تھا وہ شکر کا باعث نہیں لگتی تھی۔ خدا نے انکو انکے کہنے پر گوشت بھی فراہم کیا مگر ان سے ناراض تھا کیونکہ انھوں نے خداوند خدا کو جو انکے درمیان تھا ترک کیا۔ من کو جو خدا انکو دے رہا تھا۔

 کچھ سال پہلے میرے دل میں پاکستان کی یاد آئی ۔ مجھے یاد ہے کہ میرا دل کیا کہ مونگرے کی سبزی جو امریکہ میں نہیں ملتی وہ کھاوں۔ ان دنوں بھی میں یہی والے حوالے پڑھ رہی تھی ایک دم مجھے خیال آیا کہ کیا میں بنی اسرائیل کی طرح بڑبڑاوں تو خدا کی سزا کے لائق نہ ٹھہروں گی اور کیا میں واقعی خدا کو ترک کرنا چاہتی ہوں؟  زبور 34:8 میں لکھا ہے کہ آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔ اسی آیت کا انگلش میں ترجمہ ایسے ہے "چکھو اور دیکھو کہ خدا بھلا ہے۔” میں نے آزما کر دیکھا تھا کہ خدا اچھا ہے۔ میں نے اسی وقت توبہ کی۔ پچھلے سال جب میں نے سبزیاں اگائیں تو پہلی دفعہ مولی لگانے کا سوچا۔ جب مولی کے پھول نکلے اور انکی پھلی نکلی تو مجھے خیال آیا کہ مونگرے تو مولی کے پودے پر نکلتے ہیں میں تو بالکل بھول گئی تھی۔ میں نے شاید 16 سال کے بعد مونگرے دوبارہ کھائے تھے۔ میں آپ کو یہ باتیں اسلیے بتاتی ہوں کہ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خدا نے مجھے برکت دی ہے تو ٹھیک سوچتے ہیں اور یہی برکتیں وہ آپ کو بھی دینا چاہتا ہے۔ میں تو مونگرے کھانے کا بھول گئی تھی مگر خدا نہیں بھولا تھا J۔ اس نے اپنا آپ مجھے ہر حال میں صاف ظاہر کیا ہے اور اگر کبھی اسرائیلیوں کی طرح آپ نے بھی اس سے پوچھا ہے "یہ کیا ہے؟” تو وہ آپ پر بھی اپنا آپ ظاہر کرے گا۔ اسکو ترک مت کریں۔

اب بات کرتے ہیں "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

یہ وہ جملہ ہے جسکو میں دعائے ربانی بولتے ہوئے نہیں بولنا پسند کرتی تھی J کیونکہ لوقا کی انجیل کے مطابق یہ لکھا ہے "اور ہمارے گناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں۔” میں جب چھوٹی تھی تو میرا دل نہیں کرتا تھا ہر کسی کو معاف کرنے کے لیے اسلیے میرا یہ کہنا کہ میں بھی ہر کسی کو معاف کرتی ہوں خدا کے سامنے ایک جھوٹ؛ کچھ مناسب نہیں لگتا تھا۔ مجھے اس جملے میں یہ شرط نظر آتی تھی "جس طرح”۔ اگر میں دوسروں کے گناہ معاف نہیں کرتی تو میرے بھی گناہ معاف نہیں ہو پائیں گے۔

اسکا تفصیل میں مطالعہ ہم اگلی بار کریں گے۔ جب آپ اس جملے کو بولیں تو ایک بار ضرور سوچیں کہ آپ نے کتنوں کو پورے دل سے معاف کیا ہے۔




(دعائے ربانی؛ (دوسرا حصہ

پچھلی بار ہم نے دعائے ربانی کے پہلے جملے "ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے”، پر نظر ثانی کی تھی اور آج ہم "تیرا نام پاک مانا جائے” کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔ اگر آپ نے وہ آرٹیکل نہیں پڑھا تو اس کو وقت نکال کر ضرور پڑھیں۔

"ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے”؛ میں نے جو دعائے ربانی کا سانچہ پیش کیا تھا یہ اسکے پہلے حصے "حمد و تعریف” کے بیچ میں آتا ہے۔ سانچہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ اپنی ذاتی دعا مانگیں تو اس سانچہ کو دھیان میں رکھ کر اپنی دعا مانگیں۔ جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ دعا لمبی ہو یا چھوٹی یہ آپ کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ آپ کتنا وقت اپنے آسمانی باپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنی ذاتی زندگی میں جو ایک بات نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ میں جب خدا کو اپنا وقت دیتی ہوں تو وہ میرے پورے دن کے کام کو خود منظم کر دیتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ روز اسکے لیے وقت نکال سکیں۔

۔۔۔۔۔تیرا نام پاک مانا جائے۔۔۔۔۔۔

افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسیحیوں کو یہ علم نہیں کہ انکے خدا کا نام کیا ہے۔ بہت سے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ اسکا نام الوہیم یا ال یا یہواہ یری ہے۔ میرے سے جب غیر مسیحی یہ بات کریں کہ آپ کا اور میرا خدا ایک ہی ہے تو میں ان سے اکثر کہتی ہوں "جی نہیں میرا خدا آپ کا خدا نہیں میرے خدا کا نام یہواہ ہے۔” بولنے میں تو تھوڑا سا بد تمیزانہ انداز لگتا ہے مگر مجھے اسکی خاص پروا نہیں میں ان لوگوں کو صاف بتانا چاہتی ہوں کہ میرے خدا کا نام یہواہ ہے۔ یہ وہ نام ہے جو خدا نے موسیٰ کو اس وقت بتایا تھا جب موسیٰ نے خدا سے پوچھا؛ خروج 3:13 اور 14 آیت

تب موسیٰ نے خدا سے کہا جب میں بنی اسرائیل کے پاس جا کر انکو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اسکا نام کیا ہے؟ تو میں انکو کیا بتاوں؟ خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔

اگر آپ نے میرا آرٹیکل "یسوع، یشوعا یا یہوشوعا” اور "کیا یشوعا (یسوع) یہواہ ہے” نہیں پڑھا تو اسکو ضرور پڑھیں آپ کا علم اس بارے میں اور بھی گہرا ہو جائے گا۔  عبرانی میں خدا نے موسیٰ کو یہ نام دیا "אהיהאשראהיה، ایح یہ- آشر- ایح یہ، Ehyeh-Asher-Ehyeh” اسکا مطلب بنتا ہے "میں جو ہوں سو ہوں” یا پھر "میں جو تھا سو تھا” یا "پھر میں جو ہونگا سو ہونگا۔” یہ الفاظ ماضی، حال اور مستقبل میں یکساں ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ آخر ہمارا خدا کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں 13:8)۔ "میں ہوں” جب بھی یشوعا نے نئے عہد نامے میں استعمال کیا (ہر جگہ نہیں) یہودیوں نے اسے پتھر مارنا چاہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو یہواہ ہی بتا رہا تھا۔  (مثال کے طور پر یوحنا 8:58) سو آخر یہ کیسے ہے کہ وہ "אהיהאשראהיה، ایح یہ- آشر- ایح یہ، Ehyeh-Asher-Ehyeh” لیکن جب ہم بولتے ہیں تو ہم "یہواہ” کہتے ہیں۔ جب خدا اپنے آپ کو پکارتا ہے تو وہ "היה، میں ہوں” کہتا ہے لیکن جب ہم اسے پکارتے ہیں تو ہم اسے "יהוה، یہواہ یعنی؛ وہ ہے” پکارتے ہیں۔

آپ کو پھر سے بتاتی چلوں کہ قدیم عبرانی "יהוה، یہواہ” میں یشوعا چھپا ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی ہم آپ کو قدیم عبرانی حروف کا چارٹ بنا کر دکھائیں گے  تاکہ آپ کو میری باتوں کی بہتر سمجھ آسکے۔ قدیم عبرانی تصاویر کے مطابق יהוה کا یہ مطلب ہے،

י – یود – ہاتھ

ה- حے – دیکھو

ו – واو- کیل

ה – حے – دیکھو

"ہاتھ دیکھو کیل دیکھو” یشوعا؛ یہواہ کے قدیم عبرانی نام میں چھپا ہوا ہے۔  ہمیں اسکا نام پاک ماننا چاہیے۔ آپ کو دس احکام میں تیسرا حکم یاد ہے۔ "تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔۔۔۔۔ (خروج 20:7)” میسیانک یہودیوں/یہودیوں نے اس حکم کی بنا پر لوگوں کو سختی سے خدا کا نام "یہواہ” لکھا دیکھ کر بھی "ادونائی” پڑھنے کا کہا ہوا ہے اور اسے "ہاشیم، Ha Shem,  وہ نام” کہنے کو کہا۔  دس احکام کے بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے  مگر اس وقت ہم صرف یہواہ کے نام کو لینے کے بارے میں غور کریں گے۔ سو کیا میرے اور آپ کے لیے خدا کو یہواہ پکارنا ٹھیک ہے؟ کلام کیا کہتا ہے اسکے بارے میں ہم کچھ آیات دیکھتے ہیں۔

صفنیاہ 3:9

اور میں اس وقت لوگوں کے ہونٹ پاک کردونگا تاکہ وہ سب خداوند سے دعا کریں اور ایک دل ہو کر اسکی عبادت کریں۔

گو کہ اس آیت میں اردو ترجمہ ” خداوند سےدعا” کیا گیا ہے لیکن عبرانی اور انگریزی میں یہ ایسے ہے۔

כִּֽי־אָ֛זאֶהְפֹּ֥ךְאֶל־עַמִּ֖יםשָׂפָ֣הבְרוּרָ֑הלִקְרֹ֤אכֻלָּם֙בְּשֵׁ֣םיְהוָ֔הלְעָבְדֹ֖ושְׁכֶ֥םאֶחָֽד׃

Then I will purify the lips of the peoples, that all of them may call on the name of the LORD and serve him shoulder to shoulder.

حزقی ایل 39:7

اور میں اپنے مقدس نام کو اپنی امت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جانینگی کہ میں خداوند اسرائیل کا قدوس ہوں۔

زبور 105:1

خداوند کا شکر کرو۔ اسکے نام سے دعا کرو۔ قوموں میں اسکے کاموں کا بیان کرو۔

یسعیاہ 42:8

یہواہ میں ہوں۔ یہی میرا نام ہے۔ میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لیے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لیے روا نہ رکھوںگا۔

یسعیاہ 52:5 اور 6

پس خداوند یوں فرماتا ہے کہ اب میرا یہاں کیا کام حالانکہ میرے لوگ مفت اسیری میں گئے ہیں؟ وہ جو ان پر مسلط ہیں للکارتے ہیں خداوند فرماتا ہے اور ہر روز متواتر میرے نام کی تکفیر کی جاتی ہے۔ یقیناً میرے لوگ میرا نام جانینگے اور اس روز سمجھیںگے کہ کہنے والا میں ہی ہوں۔ دیکھو میں حاضر ہوں۔

زبور 91:14 اور 15

چونکہ اس نے مجھ سے دل لگایا ہے اسلئے میں اسے چھڑاونگا۔ میں اسے سرفراز کرونگا کیونکہ اس نے میرا نام پہچانا ہے وہ مجھے پکاریگا اور میں اسے جواب دونگا۔۔۔۔۔۔۔

آپ اس کو کس نام سے پکار رہے ہیں۔ جب آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو آپ اپنے خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ آپ اسکو غیر قوموں میں کیسے بلند کر رہیں ہیں؟ الٹے کام کر کے اسکے پاک نام کو بدنام مت کریں۔ وہ مقدس ہے آپ اس سے جڑے ہوئے ہیں لہذا اپنے آپ کو بھی دوسروں کے سامنے پاک دکھائیں نہ صرف دوسروں کے سامنے بلکہ خدا کی نظر میں بھی۔ (احبار 20:26، 1 پطرس 1:16)

ایک اور بات جو میں یہیں واضع کرتی چلوں کیونکہ کچھ عرصے پہلے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ "ابراہام خدا کو اسکے نام یہواہ سے نہیں جانتا تھا؟” میں نے پوچھا کہ کلام میں کہاں لکھا ہے؟ انھوں نے کہا "علم نہیں” خیر میں نے کچھ آیات دکھائیں جس میں انگریزی میں لکھا تھا کہ ابراہام خدا کو یہواہ کے نام سے ہی جانتا تھا۔ (مثلاً پیدائش 13:4، 14:22، 15 باب) ان آیات میں جہاں اردو میں کلام کا ترجمہ "خداوند” کیا گیا ہے وہاں عبرانی کلام میں "یہواہ” لکھا ہے۔ کچھ عرصے پہلے میں ایک ربی کا واعظ سن رہی تھی جب ربی نے خروج 6:2 اور 3 کا حوالہ پڑھا تو میرے ذہن میں ایک دم ان جوشیلے خدا کے بندے کا سوال ذہن میں آیا۔ آپکو بھی اسکی وضاحت کر دوں۔  خروج 6:2 اور 3 میں لکھا ہے

پھر خداوند نے موسٰی سے کہا میں خداوند ہوں۔ اور میں ابراہام اور اضحاق اور یعقوب کو خدای قادر مطلق کے طور پر دکھائی دیا لیکن اپنے یہواہ نام سے ان پر طاہر نہ ہوا۔

اس آیت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہام، اضحاق اور یعقوب کو خدا کا نام یہواہ معلوم نہیں تھا مگر عبرانی کلام میں جگہ جگہ انھوں نے یہواہ کا نام استعمال کیا ہے، آخر کیا وجہ ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اپنی اولاد کا نام انکے حالات کے مطابق رکھتے تھے۔ آپ مثال کے لیے پیدائش کا 29 اور 31 باب خود دیکھ سکتے ہیں۔ ابراہام کے بارے میں تلمود بیان کرتی ہے کہ ابراہام جب جوان تھا تو اسکو بتوں کی پوجا کرنا بیوقوفی لگتی تھی۔ لہذا ایک دن اس نے اپنے باپ کے تمام بتوں کو ہتھوڑے سے توڑ کر ہتھوڑا سب سے بڑے بت پر رکھ دیا۔ جب اسکا باپ گھر آیا تو اسکے باپ نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ ابراہام نے کہا کہ تمام بت آپس میں جھگڑ پڑے مگر آخر میں سب سے بڑا بت جیت گیا۔ میں اس کہانی کی تفصیل میں ابھی نہیں جاوںگی مگر میرے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ابراہام کے باپ تارح نے اپنے بیٹے ابراہام، اسکی بیوی اور لوط کو لے کر جب کنعان کے ملک کی طرف سفر شروع کیا تو ان لوگوں کو "خداوند خدا تعالیٰ” کا صرف اس طرح سے پتہ تھا کہ یہواہ تمام بتوں/خداوں سے بڑھ کر ہے۔ وہ سب سے اعلیٰ خدا ہے۔ انھیں علم نہیں تھا کہ وہ "یکساں خدا” ہے جو کبھی بھی نہیں بدلتا جو وہ کہتا ہے پورا کرتا ہے۔  انھیں خدا کے نام کا تو پتہ تھا مگر اسکے نام کا گہرا علم نہیں تھا اسلیے خدا نے موسیٰ کو کہا کہ وہ انکو خدای قادر کے طور پر دکھائی دیا۔

ال، الوہیم، ادونائی، یہواہ یری، اتا ایل روئی وغیرہ یہ سب یہواہ کے خطاب ہیں مگر اسکا اپنا نام یہواہ ہی ہے۔ میں کسی اور مطالعہ میں خدا کے کچھ خطاب کے بارے میں تفصیل سے بیان کرونگی تاکہ آپ اسکو اپنی ذاتی دعا میں استعمال کر سکیں۔ یہ مطالعہ میں ادھر ہی ختم کرتی ہوں۔ خدا آپ سب کو برکت دے اور اپنے کلام کے علم میں اور بڑھائے۔ آمین

 تحریر: شازیہ لوئیس




(دعائے ربانی؛ (پہلا حصہ

دعائے ربانی ایک عام مسیحی کو اچھی طرح سے آتی ہے۔ میرا نہیں خیال کے میں آج تک کسی ایسے مسیحی سے ملی جس کو دعائے ربانی نہ آتی ہو۔ بچپن سے ہی یہ دعا ہمیں سکھا دی جاتی ہے۔ متی کی انجیل 6 باب میں یشوعا نے ایسے کہا "پس تم اس طرح دعا کیا کرو۔۔۔۔” اور لوقا 11:1 میں ایسا لکھا ہے؛

پھر ایسا ہوا کہ وہ کسی جگہ دعا کر رہا تھا۔ جب کر چکا تو اسکے شاگردوں میں سے ایک نے اس سے کہا ائے خداوند! جیسا یوحنا نے اپنے شاگردوں کو دعا کرنا سکھایا تو بھی ہمیں سکھا۔

یشوعا کے شاگردوں کی طرح کافی سال پہلے میرے دل میں بھی خواہش جاگی تھی کہ میں اس سے کہوں کہ مجھے دعا کرنا سکھا۔ شاید آپ کے دل میں بھی یہ خواہش ہو اور اسی سوچ کے ساتھ میں آپ کے ساتھ وہ علم بانٹنا چاہتی ہوں جو اس نے مجھے "دعا” پر دیا۔ میں بہت سے علما کی طرح اتنے تہذیب یافتہ طریقے سے بیان نہیں کر سکتی کہ "دعا” کے معنی کیا ہیں یا اسکی اہمیت کیا ہے۔ میں بس یہ جانتی ہوں کہ آسمانی باپ سے اگر رشتہ قائم رکھنا ہے تو اس سے روز بات چیت ضروری ہے۔دعا میں ہم یہی کرتے ہیں؛ اپنے آسمانی باپ سے بات چیت۔ زبور 145:18 میں لکھا ہے؛

خداوند ان سب کے قریب ہے جو اس سے دعا کرتے ہیں۔ یعنی ان سب کے جو سچائی سے دعا کرتے ہیں۔

 یشوعا نے جب اپنے شاگردوں کو دعا سکھائی تھی تو اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ روز ہی ایک رٹی رٹائی دعا مانگی جائے گو کہ یہ غلط نہیں ہے۔ دعا دل سے نکلتی ہے نہ کہ صرف زبان سے۔ شاید اسلیے زبور 34:18 میں لکھا ہے؛

خداوند شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔

اور زبور 51:17

شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ ائے خدا تو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔

دعا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک دعا لمبی نہ ہو خدا سنے گا نہیں۔ سادہ دعا، دل سے نکلی بار بار ایک ہی دعا یا پھر لمبی دعا؟ دعا کیسے مانگنی چاہی؟ یہ ہم متی 6 باب کی 9 سے 13 آیات میں دیکھیں گے۔

متی 6 باب 9 سے 13

پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا (کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین)۔

کیونکہ بادشاہی اور قدرت۔۔۔۔ یہ آپ کو بریکٹ میں اسلئے نظر آ رہا ہے کیونکہ یہ قدیم متن میں نہیں ہے۔ جب بھی کبھی آپ کو کلام میں بریکٹ میں کچھ لکھا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ یہ تمام قدیم متن کا حصہ نہیں۔ لوقا کی انجیل میں آپ کو "بلکہ برائی سے بچا” کا جملہ نہیں نظر آئے گا۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ لوقا کی انجیل میں ٹھیک نہیں لکھا یا متی کی انجیل غلط ہے۔

 یشوعا نے دعا کا کچھ ایسا سانچہ پیش کیا تھا اور یہی سانچہ ہماری اپنی عام دعا کا بھی ہونا چاہیے؛

1-      حمد و تعریف

2-      بحالی

3-      گذارش

4-      توبہ

5-      تحفظ

6-      شکرگذاری

ہم اس مطالعہ میں دعائے ربانی کے جملوں کو گہرائی میں دیکھیں گے مگر آج ہم صرف "ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے۔” اسکے بارے میں بات کریں گے۔

خالی یہودی اور مسیحی ہیں جو کہ اپنے خدا سے دعا منگتے ہوئے اسے "باپ” پکار سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کسی انگریز پادری کو یہ کہتے سنا تھا کہ خالی مسیحی خدا کو آسمانی باپ کہہ کر خطاب کر سکتے ہیں۔ اس وقت تو میں نے اتنا دھیان نہیں دیا تھا مگر اب خیال آتا ہے کہ "آسمانی باپ” کوئی نئے عہد نامے کا تصور نہیں ہے۔ خروج 4:22 میں خدا نے اسرائیل کے لیے فرعون کو یہ پیغام دیا؛

اور تو فرعون سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا ہے بلکہ میرا پہلوٹھا ہے۔

اور جب خدا اپنی قوم کو مصر سے نکال لایا تو موسیٰ نے اپنے گیت میں یہ کہا؛ استثنا 32:6

کیا تم ائے بے وقوف اور کم عقل لوگو! اس طرح خدا کو بدلہ دوگے؟ کیا وہ تمارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے؟ اس ہی نے تم کو بنایا اور قیام بحشا۔

یہودیوں کی اپنی دعا کی کتاب میں بے شمار دعائیں خدا کو "باپ ” ہی پکارتی ہیں۔ یشوعا نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ دعا مانگتے وقت خدا کو آسمانی باپ پکاریں، اس نے یہ نہیں کہا کہ "یہواہ” پکارو بلکہ "آسمانی باپ”۔ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا۔ جیسے ہمارا جسمانی باپ ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے ویسے ہی یشوعا چاہتا تھا کہ ہمیں دھیان رہے کہ ہمارا آسمانی باپ ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے۔ اسلیے یشوعا نے متی 7:9 سے11 میں کہا؛

تم میں ایسا کونسا ہے کہ اگر اسکا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے؟ یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے؟ پس جبکہ تم برے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟

عبرانی زبان میں باپ کو אב، آوو، Av کہتے ہیں اور عبرانی میں ” ہمارے باپ” کو ایوینو، Avinue کہتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ قدیم عبرانی تصویر نما تھی۔ ہر حرف تصویر نما تھا اور اسکا ایک اپنا مطلب بنتا ہے۔ آوو،Av ؛ عبرانی زبان میں "باپ” دو عبرانی حروف سے لکھا جاتا ہے؛

א، عبرانی حرف "الف” قدیم عبرانی میں سانڈ کے سر نما تھا اور اسکا مطلب "مظبوط، قوت یا طاقت اور رہنما بھی بنتا تھا۔

ב، عبرانی حرف "ویت” یا "بیت (اگر بیچ میں نقطہ ہو)” گھر یا خاندان کو ظاہر کرتا ہے۔

اگر ہم اسکو قدیم عبرانی زبان میں دیکھیں تو باپ کا مطلب بنتا ہے "وہ جو گھر/خاندان کی رہنمائی کرے یا مضبوط رکھے۔”

ہمارا آسمانی باپ اپنے بچوں کی طاقت ہے، وہ انکی رہنمائی کرتا ہے اور جب انھیں حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ انھیں حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ اگر آپ باپ ہیں تو کیا آپ اپنی اولاد کو اپنے اچھے آسمانی باپ کا عکس اپنے کردار میں دکھاتے ہیں؟

ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے۔۔۔۔۔ وہ ہمارا باپ ہے جو آسمان پر ہے۔  آسمان کے لیے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ "شمائیم، שמים،Shamayim” ہے۔ شمائیم، آسمان کی جمع ہے مطلب "آسمانوں”۔  2 کرنتھیوں 12 میں پولس نے تیسرے آسمان کا ذکر کیا ہے۔ کچھ یہودیوں کی روایت کے مطابق 7 آسمان ہیں۔ میں یہ تو نہیں جانتی کے کتنے آسمان ہیں اور کونسے آسمان پر خدا ہے کیونکہ بہت سے لوگ اس بارے میں اپنے اپنے خیالات کو اظہار کرتے ہیں میرے لیے ابھی کے لیے یہی بہت ہے کہ میرا روحانی باپ آسمان اور زمین کا مالک ہے  اور میرا اصل وطن آسمان ہے کیونکہ فلپیوں 3:20 میں لکھا ہے؛

مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے اور ہم ایک منجی یعنی خداوند یسوع مسیح کے وہاں سے آنے کے انتظار میں ہیں۔

میں اس کو ابھی یہیں ختم کرتی ہوں۔ اگر آپ خدا کو دعا میں خداوند خدا کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں تو آپ آج سے اسکو آسمانی باپ کہنے کی مشق شروع کر سکتے ہیں کیونکہ اس نے مجھے اور آپ کو یہ حق دیا ہے کہ ہم اس کو باپ پکار سکیں اور اپنے گھر کا اختیار اسکے حوالے کر سکیں تاکہ وہ ہماری رہنمائی کر سکے اور ہماری ضرورتوں کو پورا کرے۔

تحریر؛ شازیہ لوئیس