(دعائے ربانی (تیرہواں حصہ

پچھلی دفعہ ہم نے  "برائی” پر ایک نظر ڈالی تھی۔  یتزر ھ را اور یتزر ھ توؤ، دونوں ہمارے اپنے اوپر منحصر ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیسے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔  یہودی/میسیانک یہودی  رواج کے مطابق ایک دعا مانگتے ہیں  یتزر ھ را  پر غالب آنے کے لیے۔ میں اسکا ترجمہ لکھ رہی ہوں؛

یتزر ھ را پر غالب آنے کی دعا؛

بابرکت ہے تو یہواہ ہمارے خدا، کائنات کے بادشاہ جو کہ ہماری آنکھوں سے نیند اور ہماری پلکوں سے  غنودگی ہٹاتا ہے۔ یہواہ ہمارے خدا، ہمارے باپ دادا کے خدا، تیری مرضی ہو کہ ہم تیری توریت کو جانیں (عادی ہو جائیں)   اور تیرے حکموں سے جڑے رہیں۔ ہمیں گناہ کے ہاتھ میں نہ جانے دے، نا ہی مغروریت اور  خودسری کے ہاتھ، نہ ہی آزمائش کے ہاتھ اور نہ ہی شرمناکی کے ہاتھ اور نہ ہی بدی ہم پر حکمرانی کرے۔

اس میں جہاں بدی لکھا ہے وہ یتزر ھ را ہے۔ مجھے اس دعا میں یہ دعا اچھی لگتی  ہے کہ ہم اسکی مرضی کے مطابق اسکی توریت کو جانیں اور اسکے حکموں سے جڑے رہیں۔ جب کبھی ہمارا اپنا رجحان برائی کی طرف ہوتا ہے تو خدا ہمیں اپنے احکام یاد دلاتا ہے تاکہ ہم صحیح   فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ زکریاہ 4:6 میں ہے؛

۔۔۔کہ نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے رب الافواج فرماتا ہے۔

خدا بھی آپ کی روح سے مخاطب ہوتا ہے تاکہ آپ صحیح راہ پر رہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں  "بد” کے بارے میں۔

"بلکہ برائی سے بچا۔”

یونانی زبان میں "برائی” کا لفظ کلام میں  "پونیروس، Poneros ” لکھا ہوا ہے اور یہی لفظ  یوحنا 17:15 میں بھی استعمال ہوا ہے مگر اردو میں "شریر” لکھا ہوا ہے۔

یوحنا 17:15

میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ یہ کہ اس شریر سے انکی حفاظت کر۔

یشوعا ہمارا سردار کاہن ہے  اور سردار کاہن  جیسے ہیکل میں خدا سے اسرائیل کے لیے دعا کرتا تھا ویسے ہی یشوعا نے ہمارے لیے یہ دعا کہی۔ یہ اس مشکل سوال کا جواب ہے جو اکثر غیر مسیحی پوچھتے ہیں کہ اگر یشوعا خدا ہے تو اس نے خدا سے دعا کیوں کی؟ میں ابھی اسکی تفصیل نہیں بیان کر رہی مگر سوچا کہ آپ کو اس  کے بارے میں چھوٹا سے جواب سے دوں۔

اوپر دی گئی آیت کی طرح ویسا ہی” پونیروس” کا استعمال افسیوں 6:16 میں بھی ہوا ہے ؛

اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔ جس سے تم اس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو۔

اور بھی آیات ہیں مگر ان آیات کو مدنظر رکھ ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یشوعا نے نہ صرف ہمیں برائی؛  اپنی برائی بلکہ” شریر سے بچا ” کی بھی دعا مانگنا سکھائی ہے۔ افسیوں 6 کی گہرائی میں   ہم ابھی نہیں جائیں گے مگر ایک بات ضرور سیکھیں گے۔  افسیوں کا 6 باب ہمیں خدا کے سب ہتھیار باندھنے کو کہتا ہے تاکہ ہم ابلیس کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔ گو کہ ان آیات سے لگتا ایسا ہے کہ جنگ میں لڑنے والے ہتھیاروں کی بات ہو رہی ہے مگر پرانے عہد نامے کے مطابق جنگ پر نکلتے وقت کاہن عہد کا صندوق اٹھائے آگے ہوتے تھے۔ پولس نے وہی لباس پہننے کو کہا ہے تاکہ ابلیس کا مقابلہ کر سکیں۔ جیسے میں نے پہلے بھی کہا اسکا تفصیلی مطالعہ ہم پھر کبھی کریں گے  ۔  ابھی آپ کلام کی ان آیتوں کو دیکھیں؛

2 کرنتھیوں  10 باب 3 سے 5

کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں مگر جسم کے طور پر لڑتے نہیں۔ اسلئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں۔ چناچہ ہم تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔

ہماری لڑائی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے اسی طرح سے ہمارے ہتھیار بھی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہیں۔  خدا نے مجھے آپ کو کوئی عام ہتھیار نہیں دیا ہے  اس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے   تاکہ ہم شیطان کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں بلکہ اس پر غالب آ سکیں۔

گو کہ شیطان کو عبرانی میں "ھا –   سطان” کہتے ہیں "ھا” کا مطلب انگلش کا "The” ہے۔ (اسکو یاد رکھنا  میرا نہی خیال کہ آپ کے لیے مشکل ہوگا۔) مگر "را ” کا بھی بہت استعمال ہوا ہے۔ را،  Ra  مصر کے خداوں میں سے ایک خدا تھا  جسکو سورج دیوتا جانا جاتا تھا۔ میں جب دعائے ربانی کی اس آیت کو واضح کرنے کے لیے "را” کے بارے میں پڑھ رہی تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے کہ یشوعا ہمیں سورج دیوتا سے بچا نے کی بات کر رہا ہے۔ اگر آپ  "را” کی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھیں گے تو آپ کو اسکے سر پر سورج نظر آئے گا ۔ ہمارے مسیحی بہن بھائی انجانے میں سورج دیوتا کی پرستش کو کلام  کا حصہ بنا کر خدا کے سچے حکموں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ آج خدا آپ پر اس کا بھید کھو ل رہا ہے اور آپ کو  ان میں سے نکلنے کو کہہ رہا ہے۔ سچائی کو سن کر اسکو قبول کرنا آپ کے اپنے اوپر ہے۔ سچائی کو بیان کرنے کے لیے خدا نے مجھے چنا ہے اور میں آپ پر یہ سچائی کھول کر اپنا کام کر رہی ہوں۔  خدا آپ کو مجبور نہیں کر رہا بلکہ یہ فیصلہ اس نے آپ کے اپنے حوالے کیا ہوا ہے۔

 میں دعائے ربانی کا مطالعہ یہیں ختم کرتی ہوں۔  اگلی بار ہم ایک نئے موضوع کا مطالعہ کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے اور اس سچائی کو قبول کرنے کی ہمت دے جو کہ آپ کو  آزاد کرتی ہے (یوحنا 8:32)۔ آمین




(دعائے ربانی  (بارہواں حصہ

پچھلی بار ہم نے آزمائش اور امتحان کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا آپ نے کبھی خدا سے گلا کیا ہے کہ آخر کوئی برائی کا خاتما کرنے کے لیے کیوں نہیں کچھ کرتا یا کیا آپ نے کبھی کسی کو تنگی میں دیکھ کر یہ سوچا ہے کہ کوئی اس انسان کی مدد کرے۔ میں نے امتحان پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ خدا کو ابرہام اور اسکے دوسرے انبیا کی طرح کہہ سکتے ہیں "میں حاضر ہوں۔” کیوں کہ اس نے آپ کو اسی مقصد کے لیے چنا ہے کہ جو کام آپ سوچتے ہیں کہ دوسرا کرے وہ آپ کے ذمے ہے۔ اگر میں اور آپ یہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو پھر کون اٹھائے گا؟ اور اگر ابھی نہیں تو پھر کب؟ آپ اور میں ہر اایک انسان کی مدد نہیں کر سکتے مگر کسی ایک کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ خدا نے جو کام آپ کو سونپا ہے اسکو پورا کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔

آج ہم بات کرتے ہیں  "بلکہ ہمیں برائی سے بچا۔”

لوقا کی انجیل میں یہ جملہ نہیں ہے مگر متی کی انجیل میں یہ موجود ہے۔ آخر یشوعا نے کس قسم کی برائی سے بچانے کی دعا سکھائی؟ اپنی جسمانی خواہشات کی برائی یا کہ پھر شیطان سے؟ میری طرح آپ بھی یہی سمجھتے آئیں ہونگے کہ اس میں صرف  شیطان سے بچانے کی بات ہو رہی ہے۔

عبرانی زبان میں برائی کے لیے ” רע، را، Ra ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور یہ لفظ کلام میں  سب سے پہلے پیدائش 2:9 میں نیک وبد کی پہچان کے درخت  میں نظر آتا ہے۔  اور ہمیں علم ہے کہ اسی درخت کا پھل آدم اور حوا نے کھایا تھا۔  عبرانی زبان میں  ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسکو "یتزر  ھ را، יצר הרע، Yetzer HaRa  ” کہتے ہیں۔ اسکا مطلب  ہے "برائی کی طرف رحجان یا جھکاؤ” اسی کا الٹ ہے "یتزر  ھا توو،     יצר הטוב Yetzer HaTov, ” اسکا مطلب ہے "اچھائی کی طرف رجحان یا جھکاؤ”۔

پیدائش 6:5 میں لکھا ہے

اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اسکے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔

اور یرمیاہ 17:9 میں کہا گیا ہے کہ ؛

دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لا علاج ہے۔ اسکو کون دریافت کرسکتا ہے۔

آپ نے سنا ہی ہو گا کہ لوگ کہتے ہیں کہ” دل کی بات سنو” مگر خدا کی نظر میں ہمارا دل لاعلاج ہے  کیونکہ ہمارے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا کچھ پیغام آپ کو زبور 14 اور رومیوں 3 میں بھی نظر آئے گا جس کے مطابق کوئی راستباز یا نیکو کار نہیں، کوئی سمجھدار نہیں،  کوئی خدا کا طالب نہیں، کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔  مگر آخر کیوں؟  لوگ اکثر کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے (سچ ہے!) لوگ اسکے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور چونکہ اس نے ہمیں چنا ہے اس لیے چاہے اگر کوئی برائی بھی کرتا ہے  تو وہ انسان خدا کی مرضی سے کرتا ہے!!

  مجھے ابھی بھی یاد ہے کافی سال پہلے مجھے کسی نے کہا کہ "دیکھو جی  یہوداہ اسکریوتی کو خدا نے چنا تھا کہ یشوعا کو پکڑوائے تو آپ یہ کیوں کہہ رہی ہیں کہ وہ صحیح انسان نہیں تھا، آخر اس نے وہی کیا جو کلام میں کہا گیا تھاَ؟” آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ جو گناہ کرتے ہیں وہ  خدا آپ سے کرواتا ہے یا آپ کی اپنی دلی خواہش ہے۔   "یتزر  ھ را”

کو ہم یہوداہ اسکریوتی کی مثال میں ہی دیکھ لیتے ہیں کہ آخر اس نے جو یشوعا کو پکڑوایا کیا وہ اسلیے تھا کہ چونکہ خدا نے پیشن گوئی کی تھی اور اسکی یہوداہ کے لیے یہی مرضی تھی اور اسی مرضی کی بنا پر چاہے جو کچھ بھی ہو جائے یہوداہ اسکریوتی پھر بھی آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوگا؟ جیسا کہ کچھ سوچتے ہیں۔

  یوحنا 12 باب میں بیان ہے کہ جب  مریم نے یشوعا کے پاوں پر قیمتی عطر انڈیلا تو یہوداہ اسکریوتی نے کہا یہ عطر بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا۔ اسکے بعد لکھا ہے ؛

اس نے یہ اسلئے نہ کہا کہ اسکو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اسلیے کہ چور تھا اور چونکہ اسکے پاس انکی تھیلی رہتی تھی اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ (یوحنا 12:6 )

یہوداہ کہنے کو تو یشوعا کا شاگرد تھا مگر اسکو ہمیشہ پیسوں کا لالچ رہتا تھا تبھی شیطان نے اسکو اکسایا کہ یشوعا کو پکڑوائے۔(یوحنا 13) شیطان جب  ہم سےبات چیت شروع کرتا ہے تو  وہ ہمیں ہماری دل کی خواہش کے مطابق اکسا کر گناہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔  حوا کا حوالہ یاد ہے جس کے بارے میں ہم نے کچھ دن پہلے بات کی تھی؟ شیطان تب تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ ہم اسکو اپنا ہاتھ نہ دیں۔ یہوداہ کے اسی لالچ نے اسکو یشوعا کو پکڑوانے پر مجبور کر دیا ۔ یوحنا 13:27 میں لکھا ہے کہ شیطان اس میں سما گیا جب کہ اسی باب کی 2 آیت میں لکھا ہے کہ ابلیس یہوداہ اسکر یوتی کے دل میں ڈال چکا تھا کہ اسے پکڑوائے۔

مجھ سے جو بحث اس بارے میں کر رہے تھے وہ  اعمال 1:16 کی آیت کو لے کر  بات کر رہے تھے۔ اگر آپ نے میرے آرٹیکل آزمائش کے بارے میں پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ شیطان کو بھی کلام کا علم ہے مگر یشوعا نے شیطان کی ہر بات کا جواب کلام سے ہی دیا تھا۔ اسی طرح سے گو کہ کلام میں لکھا ہے  کہ یہوداہ کے بارے میں "نوشتہ کا پورا ہونا ضرور تھا۔۔۔” مگر ساتھ ہی میں پرانے عہد نامے میں  خروج 20:13 میں لکھا ہے؛

” تو خون نہ کرنا۔”

یہوداہ نے یہ تو قبول کر لیا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور اس نے پیسے واپس بھی مقدس میں پھینک دیئے مگر اس نے اپنے آپ کو پھانسی دے ڈالی۔(متی 27:5)   یتزر ھ را؛ اسکا اپنا برائی کی طرف رجحان آخر میں اسکی موت بن گیا۔  خدا نے قائن کو کہا تھا ؛

پیدائش 4:6 اور 7

اگر تو بھلا کرے تو کیا مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تو اس پر غالب آ۔

ایسی ہی آیت رومیوں 6:14 میں ہے؛

اسلئے کہ گناہ کا تم پر اختیار نہ ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ  فضل کے ماتحت ہو۔

گناہ آپ کا اور میرا مشتاق ہے مگر ہمیں اسکو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا ہے کیونکہ اگر ہم نے یہوداہ اسکریوتی کی طرح گناہ کو اپنا اختیار دے دیا تو شیطان ہم میں سما جائے گا۔

میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم  کرتی  ہوں اسکے بارے میں میں مزید اگلے آرٹیکل میں بیان کروں گی۔  خدا آپ کو برائی سے بچائے۔ آمین۔




(دعائے ربانی (گیارہواں حصہ

گو کہ اس حصہ میں، میں "بلکہ برائی سے بچا” پر بات کرنا چاہتی تھی مگر خدا چاہتا ہے کہ میں آپ کو آزمائش اور امتحان میں فرق بھی بیان کروں۔  میں نے زیادہ وضاحت آزمائش کی کی ہے لیکن امتحان کے بارے میں زیادہ اس لیے نہیں بات کر رہی تھی کہ دعائے ربانی میں آزمائش کا ذکر ہے نہ کہ امتحان کا مگر خدا جانتا ہے کہ اس گروپ میں اسکے کونسے لوگ اسکے دیے ہوئے امتحان سے گزر رہیں ہیں اور انہیں تھوڑی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پچھلے دو آرٹیکل میں  میں ایک آیت بار بار لکھ چکی ہوں ۔ ہم پھر اس آیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے بھی کہا لفظ آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

اس آیت میں  آزمائش سے مراد  امتحان ہے۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا کہ خدا ہمیں آزمائش میں نہیں ڈالتا بلکہ وہ ہماری اپنی خواہشات ہیں  جو گناہ کی دلدل میں دھکیلتی  ہیں اگر ہم انکو قابو میں نہ رکھیں۔ مگر امتحان ہمیں ہمارے ایمان میں اور مظبوط کرتا ہے جب ہم اس امتحان کو پاس کر لیں۔ خدا کافی دنوں سے میرا دھیان بار بار ابراہام اور اضحاق کی طرف دلا رہا  تھا اور کل رات بھی جب میں کلام پڑھ رہی تھی تو پھر سے ابراہام اور اضحاق کا حوالہ نظر آیا۔  پیدائش 22:1 میں لکھا ہے؛

ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمااور اس سے کہا ائے ابرہام! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔

آپ اس کہانی کو پیدائش 22 میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کل کا آرٹیکل یاد ہو تو میں نے ذکر کیا تھا کہ آزمائش کا ایک لفظ  "נִסָּ֖ה، نسہ” ہے۔ نیچے دی ہوئی عبرانی آیت میں آپ یہ لفظ خود تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ اسی لفظ کا استعمال   پیدائش 22:1 میں ہوا ہے۔

וַיְהִ֗י אַחַר֙ הַדְּבָרִ֣ים הָאֵ֔לֶּה וְהָ֣אֱלֹהִ֔ים נִסָּ֖ה אֶת־אַבְרָהָ֑ם וַיֹּ֣אמֶר אֵלָ֔יו אַבְרָהָ֖ם וַיֹּ֥אמֶר הִנֵּֽנִי׃

ابرہام کو خدا نے کہا کہ  اپنے اکلوتے بیٹے اضحاق کو جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک جا اور وہاں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاوں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ ابرہام نے خدا کی بات مانی اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیکر اس جگہ گیا جہاں خدا نے اسے سوختنی قربانی چڑھانے کو کہا تھا۔ اضحاق اس وقت چھوٹا بچہ نہیں تھا جیسے کہ فلموں میں دکھاتے ہیں۔ اسکے بارے میں تفصیل سے پھر کبھی بیان کروں گی۔  تیسرے دن جب دور سے ابرہام نے اس جگہ کو دیکھا تو اس نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں اور یہ لڑکا وہاں جا کر سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئینگے۔ اس نے لکڑیاں اضحاق کو دیں اور چھری اور آگ خود پکڑ یں راستے میں اضحاق نے اس سے پوچھا کہ "برہ کہاں ہے؟” ابرہام نے کہا "خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لیگا۔ ابرہام نے قربان گاہ بنائی اس پر لکڑیاں رکھیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اسے قربانگاہ  پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ جب اس نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے  تب خداوند کے فرشتے نے اسے آسمان سے پکار کر کہا ائے ابرہام ائے ابرہام! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ خدا نے کہا تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلااور نہ اسے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا  کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اسلئے تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ بعد میں ابرہام نے جب مینڈھا دیکھا جو جھاڑی میں اٹکا ہوا تھا تو اس نے اپنے بیٹے کی جگہ اس مینڈھے کی سوختنی قربانی چڑھائی۔

یہودی/میسیانک یہودی ہر ھفتے کلام کے خاص حصے پڑھتے ہیں  جو کہ توریت ور انبیا سے ہوتے ہیں تاکہ پورا کلام 54 ہفتوں میں ختم کر سکیں۔ میں انکے بارے میں تفصیل سے پھر کبھی بیان کروں گی۔ میسیانک یہودی ان حوالوں میں نئے عہد نامے کا حوالہ بھی شامل کرتے ہیں۔   "عقیدہ، Akedahעֲקֵידָה”توریت کا وہ حصہ ہے جو یہودی لوگ خاص یوم  تیروعہ ، نرسنگوں کی عید پر پڑھتے ہیں۔  یوحنا 1 باب میں لکھا ہے کہ ابتدا میں کلام تھا۔۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا۔  میسیانک یہودی یہ مانتے ہیں کہ جیسے ابرہام نے اضحاق کی قربانی دینی چاہی ویسے ہی خدا نے یشوعا کی قربانی دی۔ مطلب یہ "عقیدہ” یشوعا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو ہمارا کلام ہے وہ مجسم ہوا ہے۔ "خدا نے کہا”   اور پیدا کیا جیسے بار بار آپ پیدائش کے پہلے باب میں پڑھتے ہیں۔  مجھے نہیں پتہ کہ میں آپ کو سمجھا پا رہی ہوں یا نہیں مگر ان باتوں کی تفصیل میں ابھی نہیں بیان کروں گی۔

خدا نے جیسا ابرہام کا امتحان لیا ویسے ہی وہ کبھی کبھی ہمارے ایمان کا امتحان لیتا ہے ۔ خدا ، ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور نہیں کرتا  اس نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اسکو قبول کریں اور اسکے تابع ہوں۔ ابرہام  اور اضحاق کی کہانی پر بات کرتے ہوئے میں نے اکثر پادری صاحبان کو سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ابرہام نے اضحاق کو کہا کہ "خدا خود اپنے واسطے سوختنی قربانی کا برہ مہیا کرے گا” تو وہ اپنے اس ایمان کا اظہار کر رہا تھا کہ خدا اسکے بیٹے کی قربانی  کی جگہ برہ ضرور مہیا کرے گا۔ پادری صاحبان غلط نہیں کہتے  مگر میں جب یہ حوالہ پڑھتی ہوں تو مجھے ہمیشہ اس بات کا خیال آتا ہے کہ جب وہ جوانوں کو کہہ رہا تھا  کہ "سجدہ کر کے واپس  لوٹ آئینگے” تو تبھی سے اسے علم تھا کہ خدا اسکے اکلوتے بیٹے کو ضرور سلامت رکھے گا۔

جب خدا نے ابرہام کو آزمانے کے لیے پکارا تو اس نے کہا "הִנֵּֽנִי، حن-نائی Hineni,” جسکا مطلب ہے "میں حاضر ہوں۔”  یہی الفاظ یسعیاہ، موسیٰ اور سموئیل نے بھی استعمال کیے جب خدا نے انہیں پکارا۔  شاید آج خدا آپ کا امتحان لے رہا ہے کیا آپ ابرہام، موسٰی، سموئیل اور یسعیاہ کی طرح اسے  "حن-نائی، میں حاضر ہوں” کہہ رہے ہیں یا کہ پھر آپ کو سموئیل کی طرح نہیں پتہ کہ جو آپ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے۔  کیا آپ خدا سے بات کر کے اسکی بات پر عمل کرنا چاہیں گے ویسے ہی جیسے ابرہام ، موسٰی ، یسعیاہ اور سموئیل نے کیا۔  اب کی بار جب آپ خدا کی آواز سنیں تو سموئیل کی طرح کہیں "ائے خداوند فرما کیونکہ تیرا بندہ سنتا ہے۔۔۔۔(1 سموئیل 3:9)”

خدا نے ایوب کو بھی امتحان میں ڈالا تھا کیونکہ خدا کو اس پر فخر تھا کہ "زمین پر اسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا  اور بدی سے دور رہتا ہو کوئی نہیں ۔” شیطان کو پورا اعتماد تھا کہ جس دن اسکے پاس دنیا کی دولت، بچے اور کاروبار ختم ہو جائے گا  اور جسم بیماری کی وجہ سے تکلیف میں ہوگا تو وہ خود خدا کو لعنت ملامت کرے گا۔ شیطان کو خدا نے اجازت دی تھی کہ بےشک ایوب کو آزمائے مگر ساتھ میں خدا نے یہ بھی کہا  "اسکی جان محفوظ رہے۔” شاید ایوب کی طرح خدا کو آپ پر ویسے ہی فخر ہے کہ آپ شیطان کی طرف سے آئی ہوئی تمام تکلیفوں کے باوجود خدا کو ہی مانیں گے۔  جب ایوب اپنی آزمائش پر پورا اترا تو خدا نے اسے پہلے سے زیادہ برکت دی۔ آپ بھی حوصلہ رکھیں کیونکہ اگر آپ کی ابھی تکلیف بہت زیادہ ہے تو خدا نے آپ کے لیے اجر بھی بہت بڑا ہی رکھا ہے۔

میری آپ کے لیے دعا ہے کہ خدا آپ کو آپکے اس امتحان میں پورا اتارے اور کامیابی دے۔ آمین




(دعائے ربانی (دسواں حصہ

پچھلے آرٹیکل میں ہم نے  "آزمائش” کی بات کی تھی۔ اگر آج آپ کو لگتا ہے کہ آپ بھی آزمائش سے گزر رہیں ہیں تو یاد رکھیں کہ پولس نے 1 کرنتھیوں 10:13 میں کہا؛

"تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دےگا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔”

نواں حصہ میں ہم نے دیکھا کہ جب شیطان نے یشوعا کو آزمایا تو اس نے ہر آزمائش کا جواب کلام سے دیا۔ کلام آپ کا ہتھیار ہے جس کو آپ اپنی آزمایش میں استعمال کر سکتے ہیں۔ عبرانی 2:18 میں لکھا ہے؛

"کیونکہ جس صورت میں اس نے خود ہی آزمائش کی حالت میں دکھ اٹھایا تو وہ انکی بھی مدد کر سکتا ہے جنکی آزمائش ہوتی ہے۔”

آپ کو اپنی آزمائش میں مدد صرف اور صرف کلام سے مل سکتی ہے۔یشوعا نے متی 13 میں بیج بونے والی کی تمثیل دی جب یشوعا کے شاگردوں نے اس سے اس تمثیل کا مطلب پوچھا تو یشوعا نے جواب میں کہا "جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اسکے دل میں بویا گیاتھااسے شریرآکر چھین لےجاتاہے۔ یہ وہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ اور جو پتھریلی زمین  میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور اسے فی الفور خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔ لیکن  اپنے اندر جڑنہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتا ہے۔ اور جو جھاڑیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دنیا کی فکر اور دولت کو فریب اس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا کوئی تیس گنا۔(متی 13:18 سے 23)”

آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

آپ کو اپنی پڑھائی کے دنوں میں امتحان دینا یاد ہی ہوگا J بس اسکو بھی ایک طرح سے ویسا ہی سمجھ لیں۔ خدا کے کلام کا استعمال اپنی زندگی میں روزانہ کریں۔  عبرانی میں آزمائش کو "נסה، Nasahنسہ” کہا جاتا ہے۔  جب میں عبرانی زبان میں دعائے ربانی پر نظر ڈال رہی تھی تو آزمائش کے لیے مجھے عبرانی میں ایک اور لفظ بھی نظر آیا جسکو   "מסה، Massahمسہ” کہتے ہیں۔ خروج 17:7 میں جس جگہ اسرائیلیوں نے خدا کی انکے بیچ موجودگی کا امتحان لیا اس جگہ کا نام بھی یہی لفظ "مسہ” ہے۔  قدیم عبرانی میں

נ– نسل/بیج

ס– کانٹا (کانٹا نما تصویر)

ה– ظاہر ہونا

تصویریں دیکھتے ہوئے مجھےایسا لگ رہا تھا  کہ جیسے یہ میری اور آپ کی اپنی (نسل) کی ان خواہشات کو ظاہر کر رہا ہے جو کانٹے کی طرح ہم سے جڑی ہیں۔  ہمیں اپنی جسمانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے روز خدا سے سہارا مانگنے کی ضرورت ہے کہ "ہمیں آزمائش میں نہ لا۔” مسہ میں اسرائیلیوں نے خدا کا امتحان لیا کیونکہ وہ پیاسے تھے وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی خدا انکے درمیان ہے۔  מ، کا قدیم عبرانی میں مطلب "پانی” ہے۔ مسہ یا پھر لفظ نسہ، خدا مجھے اور آپ کو آزمائش میں نہ لائے۔

خدا نے چاہا تو کل ہم "بلکہ برائی سے بچا ” پر بات کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے۔ آمین۔




(دعائے ربانی  (نواں حصہ

"اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔”

اس مطالعے میں ہم صرف "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر بات کریں گے۔

خدا ہمیں خود نہیں آزماتا کیونکہ یعقوب 1:13 سے 15 میں لکھا ہے؛

"جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔”

یشوعا کو علم تھا کہ ہم پر آزمائشیں آئینگی اسلیے اس نے  اس طرح دعا مانگنے کو کہا تاکہ خدا ہمیں آزمائش سے بچا سکے۔ آزمائش ہماری اپنی جسمانی خواہشات سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم اپنی بلاوجہ کی جسمانی خواہشات کو قابو میں نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور کر دے گی اور وہی گناہ ہماری موت کا باعث بن سکتا ہے۔ یعقوب  1:2 سے 4 میں یعقوب نے کہا؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

جب ہم اپنی دنیاوہ خواہشات کو قابو پانا سیکھ لیتے ہیں تو ہم روحانیت میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں ۔

آپ کو علم ہوگا کہ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کو ابلیس نے آزمایا وہ بھی تب جب اسکو بھوک لگی۔ اگر میری طرح کبھی آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا ہے کہ آخر کار جب ہم یشوعا کو خدا کہتے ہیں اور کلام کہتا ہے کہ خدا بدی سے  آزمایا نہیں جا سکتا تو کیونکر یشوعا کو ابلیس نے آزمایا۔ اگر آپ نے میرا آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی زمین پر آنے کی؟” نہیں پڑھا تو اسکو فیس بک کے اس پیج پر تلاش کرکے ضرور پڑھیں۔ اب ہم بات کرتے ہیں کہ آخر یشوعا کیوں آزمایا گیا تھا۔ میں ابھی اس آرٹیکل میں ان چالیس دنوں کی بات نہیں کروں گی بلکہ صرف ابلیس کا یشوعا کو آزمانا بیان کروں گی۔  اگر آپ رومیوں کا 5 باب اور اکرنتھیوں 15  پڑھیں تو آپ جانیں گے کہ پولس (اسکا اصلی نام عبرانی میں شاؤل ہے۔) نے یشوعا کو دوسرا یا  پچھلا آدم کہا ہے۔ پولس نے ذکر کیا کہ آدم کے گناہ کے سبب سے موت آئی اور پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔

 یوحنا  2:16 آیت میں  تین قسم کی دنیاوی  خواہشات کا بیان ہے؛

کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خوہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے۔

یوحنا اس آیت میں واضح کر رہا ہے کہ جسمانی خواہش،  زندگی کی شیخی اور آنکھوں کی خواہش وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔ جیسے شیطان نے عورت کو ورغلایا  تھا  کچھ اسی قسم کی آزمائشات وہ  یشوعا پر بھی  لایا۔ ہم ان تین آزمائشوں کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں مگر اس سے پہلے میں پیدائش 3:6بھی دکھاتی چلوں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں؛

عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اسکے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔

1-      جسم کی خواہش؛

(متی 4:3) اور آزمانے والے نے پاس آکر اس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔

جب سانپ نے عورت کو بہکایا تھا تو اس نے اس سےشکی انداز میں پوچھا "۔۔۔کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ (پیدائش 3:1) اوپر دی آیت میں بھی شیطان جانتے بوجھتے یشوعا کو کہہ رہا ہے "اگر تو خدا کا بیٹا ہے۔” یشوعا بیابان میں تھا جہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا  شیطان اسلئے یشوعا کو جانتے بوجھتے اپنی قوت کا استعمال کرکے پتھر کو روٹیاں بنانے کو کہہ رہا تھا کیونکہ وہ بھوکا تھا۔ حوا کو بھی جب اس نے بہکایا تو "عورت نے دیکھا کہ درخت کھانے کے لیے اچھا ہے۔” پہلے آدم نے اپنی جسمانی خواہش کو قابو میں نہ کیا اس نے اپنے آپ کو خدا کا حکم یاد نہ دلایا مگر یشوعا نے فوراً کلام کا حوالہ دیا اور کہا "لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہ جیتا رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ نکلتی ہے۔(متی 4:4) پرانے عہد نامے میں یہ حوالہ استثنا 8:3 سے ہے۔

2-      زندگی کی شیخی؛

پیدائش کے 3 باب میں جب شیطان نے عورت کو بہکایا تو اس نے کہا "تم ہرگز نہ مرو گے۔بلکہ خدا جانتا ہےکہ جس دن تم اسے کھاوگے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤگے۔

شیطان نے جب یشوعا کو ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے آزمایا تو اس نے کہا "اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔(متی4:6)

 شیطان کو خدا کی باتوں کا علم مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے۔  اس نے جب عورت کو خدا کی مانند بننے کا ذکر کیا  تو وہ تھوڑا بہت سچ ہی کہہ رہا تھا  (پیدائش 3:22)اور ا سلئےحوا نے جب دیکھا کہ عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس نے پھل میں سے لیا۔ جب شیطان نے جانا کہ یشوعا اسکا مقابلہ کلام کی باتوں سے کر رہا ہے تو اس نے کلام(زبور 91) کا استعمال کرکے اسکو پھر سے آزمانا چاہا مگرساتھ ہی پھر سے یشوعا نے اسکو کلام کا ایک اور حوالہ دیا (استثنا 6:16) جس میں کہا  گیا ہے "تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔”  پہلا آدم خدا کے حکموں کو بھلا کر خدا کی مانند بننے کی سوچ رہا تھا مگر یشوعا جانتا تھا کہ خدا نے تو انسان کو اپنی صورت پر ہی بنایا تھا۔

3-      آنکھوں کی خواہش؛

شیطان نے آخر میں یشوعا کو ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں اور انکی شان و شوکت دکھا کر کہا اگر تو مجھے جھک کر سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دونگا۔ (متی 4:8 سے 9)مگر یشوعا نے کہا ائے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے (استثنا 6:13)کہ تو  خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔

حوا نے دیکھ کر کہ پھل خوشنما ہے ؛ گناہ کرنے کا سوچ لیا مگر یشوعا نے جان کر کہ شیطان کیا چاہتا ہے اسکو اپنے سے دور ہونے کا حکم دیا۔  شیطان کا ارادہ شروع سے ہی خدا کے تخت کو چھیننے کا تھا اور یہ جان کر کہ اب یشوعا  زمین پر اپنا اختیار لینے واپس آیا ہے جو خدا نے آدم کو دی تھی؛  اسکو  تمام شان وشوکت  دکھا کر ویسا ہی کرنا چاہا جو اس نے آدم کے ساتھ کیا تھا۔ مگر شکر یہواہ کا کہ یشوعا  شیطان کی چال میں نہیں آیا۔

شیطان جب ہمیں  خدا میں بڑھتا دیکھتا ہے تو ہمیں  گناہ کرنے پر اکساتا ہے۔ وہ ہماری جسمانی خواہشات کو مدنظر رکھ کر ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم گناہ کریں اور خدا سے دور ہو جائیں۔ ہم شیطان پر ویسے ہی قابو پا سکتے ہیں جیسے یشوعا نے کیا مطلب ہر آزمائش کا مقابلہ کلام سے کریں جو ہمیں صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ کلام کا مطالعہ کریں تاکہ آپ آزمائش میں نہ پڑیں۔

 ہم دعائے ربانی کا باقی مطالعہ اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔ خدا مجھے اور آپ کو ہر قسم کی دنیاوی آزمائشوں سے بچا کر رکھے۔ آمین




(دعائے ربانی (آٹھواں حصہ

میں نے دعائے ربانی کے ساتویں حصہ میں یوم کفارہ کا ذکر کیا تھا۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس دن خاص اپنے گناہوں کا اقرار کیا جاتا ہے اور توبہ کر کی جاتی ہے۔ اگر آپ کہنے کو تو مسیحی ہیں مگر معافی دینا یا معافی مانگنا آپ کے لیے مشکل ہے تو آپ کس قسم کے مسیحی ہیں؟ کیونکہ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ہمیں خدا سے معافی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب ہم دوسروں کو معاف کریں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں بھول جانا کہ کسی نے آپ کے ساتھ کیا کیا تھا، بھی معافی ہی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر آپ نے دل سے معاف نہیں کیا ہے تو بھولنا بھی مشکل ہو جاتا ہے خاص طور پر جب انسان کا آمنہ سامنہ اس سے ہو جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو یا آپ نے انھیں۔ خدا ہمارے گناہ معاف کرتا ہے اور انھیں یاد نہیں رکھتا  (یسعیاہ 43:25 اور عبرانیوں 8:12).

جب تک انسان کے دل میں کڑواہٹ، خلش، نفرت اور بغض یا عداوت بھری رہی رہتی ہے اسکا دوسرے کو معاف کرنا مشکل ہوتا ہے تبھی تو افسیوں 4:26 ، 27 اور 31 آیات میں کہا گیا ہے؛

غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔ ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دور کی جائیں۔

گو کہ اردو کا ترجمہ کہتا ہے کہ "غصہ تو کرو” مگر انگلش میں ہے "غصہ میں گناہ نہ کرو۔” رومیوں 12:19 میں لکھا ہے؛

ائے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دونگا۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جتنا زیادہ آپ اپنے زخم کو کریدتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ خراب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے زخموں کو کریدیں مت بلکہ ویسے ہی جیسے نرس یا ڈاکٹر آپ کے زخموں کو دوائی لگا کر اور پٹی باندھ کر بالآخر ٹھیک کر دیتے ہیں؛ آپ اپنے زخم خدا کو دکھائیں وہ آپ کے زخموں کا علاج خود کرے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نشان رہ جاتا ہے جو انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے مگر وہ نشان اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا کہ اصل چوٹ تکلیف دہ ہوتی ہے۔

اگر آپ کے دل میں کسی خلاف خفگی ہے یا آپ اس سے انتقام کا سوچ رہے ہیں تو یہ سب کچھ خدا کے حوالے کر دیں۔ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کے دل سے اس خفگی یا کڑواہٹ یا غصہ کو نکال کر اپنا اطمینان دے۔ جس نے آپ کو دکھ دیا ہے اسکے لیے دعا کریں کہ خدا اسکو صحیح راہ پر لائے تاکہ وہ نجات پائے کیونکہ کلام میں لکھا ہے کہ خدا شریر کی موت پر خوش نہیں ہوتا۔ دعا مانگیں کہ اگر وہ انسان صحیح راستے پر نہیں چلنا چاہتا تو خدا اس سے خود بدلہ لے/دے۔ یوحنا 15:5 میں لکھا ہے؛

۔۔۔۔۔۔کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔

رومیوں 7:15 سے 25 آیات میں پولس کہتا ہے کہ جو نیکی وہ کرنا چاہتا ہے کر نہیں پاتا اور جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اسے کر لیتا ہے، آخر کون ہے جو اسے چھڑائے۔ اس آیت کے انگلش ترجمے میں لکھا شکر ہے خدا کا جو مجھے یشوعا کی وجہ سے رہائی دیتا ہے۔ آپ ان آیات کو خود پڑھ سکتے ہیں مگر اردو ترجمہ اس آیت کو ذرا مختلف انداز میں بیان کرتا اس لیے اسکا ترجمہ میں نے انگلش سے اردو میں آپ کے لیے کیا ہے۔ آپ اور میں اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتے مگر خدا اپنے کلام کے ذریعے ہماری ضرور مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنی خودغرضی سے نکل کر روحانی زندگی زمین پر بسر کریں۔ یاد رکھیں کہ خدا نے آپ کے گناہ معاف کیے ہیں۔ 2 پطرس 1:9 میں کہا گیا ہے؛

اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ اندھا ہے اور کوتاہ نظر اور اپنے پہلے گناہوں کے دھوئے جانے کو بھولے بیٹھا ہے۔

زبور 25:11 میں داود بادشاہ نے کہا؛

ائے خداوند! اپنے نام کی خاطر میری بدکاری معاف کردے کیونکہ وہ بڑی ہے۔

میں اردو کی بائبل سے آیتیں لکھتے ہوئے نوٹ کر رہی تھی کہ جہاں پر عبرانی کلام میں "یہواہ” استعمال ہوا ہے اکثر اوقات وہاں اردو بائبل میں "خداوند” لکھا ہوا ہے ویسے ہی جیسے کہ کچھ یہودی/میسیانک یہودی عبرانی میں "یہواہ” لکھا دیکھ کر بھی "ادونائی” پڑھتے ہیں۔ خیر! اوپر دی ہوئی آیت میں "خداوند” کی جگہ "یہواہ” لکھا ہوا ہے اور داود بادشاہ خاص خدا کو اسکا نام لے کر اسکے نام کی خاطر معاف کرنے کو کہہ  رہا ہے۔ اگر آپ نے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے اور نہیں جانتے کہ کیسے دعا مانگیں تو آپ یہ زبور  25 اپنی دعا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

اس آیت میں "معاف” کا عبرانی لفظ "סלח ، سلاح، Slehah”  گو "ח، خ” کی بھی آواز بنتی ہے مگر סלח بولتے ہوئے "خ” کی آواز ذرا کم سنائی دیتی ہے۔ اگر آپ عبرانی حروف کا چارٹ دیکھیں تو قدیم عبرانی میں סלח ایسے ہے؛

ס – سماخ – سہارا دینا/ حفاظت کرنا

ל – لا مد – سیکھانا / چرواہے کی لاٹھی کو بھی ظاہر کرتا ہے

ח – خیتھ – باہر کرنا یا جدا کرنا

اگر آپ کو ان حروف کو مطلب تھوڑا سا چارٹ سے مختلف لگے تو یہ مت سوچیں کہ اردو کا عبرانی حروف کا چارٹ صحیح نہیں۔ ان حروف کے کچھ اور بھی مطلب ہیں جو کہ اس چارٹ میں درج نہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر زبان میں جملے کی ترتیب تھوڑی مختلف ہو سکتی ہے۔ סלח کا گہرا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ کا چرواہا آپ کو سہارا دیتا ہے اور آپ کو جدا کرتا ہے (دوسروں سے)۔ جدا کیوں کرتا ہے؟ امثال 22: 24 اور 25 میں لکھا ہے؛

غصہ ور آدمی سے دوستی نہ کر اور غضبناک شخص کے ساتھ نہ جا۔ مبادا تو اسکی روشیں سیکھے اور اپنی جان کو پھندے میں پھنسائے۔

خدا کا کلام انسان کو کامل بناتا ہے۔ میرا اور آپکا چوپان جانتا ہے کہ کن لوگوں سے ہمیں جدا کر کے وہ ہمارے کردار کو بہتر کر سکتا ہے۔ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہمیں باقی لوگوں سے الگ رکھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ صرف تب تک کرتا ہے جب تک کہ آپ دوسرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائیں۔ اور پھر آپ کو اور مجھے تو خدا نے اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے۔

زبور 4:3

جان رکھو کہ خداوند نے دیندار کو اپنے لئے الگ کر رکھا ہے۔ جب میں خداوند کو پکارونگا تو وہ سن لیگا۔

اگر ہم اسکا کلام اپنے دل میں رکھ لیں گے تو ہم اسکے خلاف گناہ نہیں کریں گے (زبور 119:11) کیونکہ اسکا کلام ہمیں ہمیشہ غلط کام کرنے سے روکے گا۔

 "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔” کے بارے میں اپنے مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اور خدا نے اگر مجھے موقع دیا تو جلد ہی دعائے ربانی کے اگلے جملے "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر آرٹیکل پوسٹ کروں گی۔

خدا آپ کو ہمت دے تاکہ آپ اپنے دشمنوں کو معاف کرکے خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکیں۔ آمین۔




(دعائے ربانی (ساتواں حصہ

"جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

میرے لیے،   کلام کے اس جملے پر عمل کرنا سب سے دشوار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکو بولنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر ساتھ میں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اگر میں نے اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا تو میرے لیے سب کچھ بے فائدہ ہے۔ کیونکہ یعقوب 1:22 سے 24 میں یہی تو لکھا ہے؛

لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو اور اس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر چلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ میں کیسا تھا۔

قدیم زمانہ میں شیشہ دھات کا بنا ہوتا تھا عام طور پر پیتل کا۔ کلام کے مطابق پیتل فیصلے/عدالت/سزا کی علامت ہے۔  جیسے کہ جب خدا نے موسیٰ کو سانپ سے ڈسے لوگوں کو بچانے کے لیے پیتل کا سانپ بنانے کو کہا تھا اور قربانی کا مذبح بھی پیتل کے خول سے منڈھا گیا تھا)۔ لہذا اوپر کی آیت کے مطابق یعقوب پیتل کے بنے شیشے کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر آپکا نام خدا سے جڑا ہے (مسیحی، مسیح سے) تو جب میں اور آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ کلام کو خالی سننے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اس پر عمل نہیں کر رہے۔ مجھے علم تھا کہ میں خدا کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جتنا دشوار کام لوگوں کو معاف کرنا ہے وہ صرف وہی انسان جان سکتا ہے جس پر بہت بری بیتی ہو۔ مگر یشوعا نے خود ہمارے لیے مثال چھوڑی جب اس نے اپنے سولی چڑھانے والوں کو معاف کردیا۔ شاید آپ کے لیے بھی لوگوں کو معاف کرنا مشکل ہو مگر اگر آپ یشوعا کے پیروکاروں میں سے ہیں تو جیسے اس نے کیا ویسا ہی آپ کو بھی کرنا ہے۔

جب پطرس یشوعا کے پاس آیا یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کو کتنی بار معاف کرے تو یشوعا نے اس سے کہا سات دفعہ کے ستر بار۔ آپ متی 18:21 سے 35 آیات خود کلام میں پڑھیں۔ میرے بڑے بیٹے نے ایک دن مجھ سے مذاق میں کہا "مام سات دفعہ کے ستر بار معاف کرنے کے بعد مجھے کسی کو معاف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یشوعا کا یہی حکم تھا۔” میں نے اس سے کہا پہلی بات یہ کہ میرا نہیں خیال کہ آپ نے کسی کو 490 بار معاف کر دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اتنی بار معاف کر کر کے تو انسان کی ویسی ہی معاف کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔

متی کی اس تمثیل کے مطابق ایک مالک نے اپنے اس قرضدار نوکر کو جس نے 10 ہزار توڑے ادا کرنے تھے معاف کر دیا کیونکہ اس نے منت کی کہ اسے معاف کر دیا جائے مگر جیسے ہی وہ قرضدار باہر نکلا تو اسکو اپنا ایک وہ قرضدار نظر آیا جس نے اسکا 100 دینار لیا تھا مگر واپس نہیں کیا تھا۔ اس آدمی نے اپنے اس قرضدار کو بغیر کوئی مہلت دیے پکڑ کر قید میں ڈال دیا۔ جن لوگوں نے یہ دیکھا وہ بہت غمگین ہوئے اور انھوں نے مالک کو بتا دیا۔ اس مالک نے اپنے اس نوکر کو بلایا اور کہا ائے شریر نوکر! میں نے وہ سارا قرض تجھے اس لیے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسے میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا۔ لہذا مالک نے اس قید میں ڈال دیا جب تک کہ وہ سارا قرض نہ دے ڈالے۔ ساتھ ہی میں یشوعا نے یہ کہا کہ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گا اگر تم اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرو۔

ہمارا مالک، خدا؛ اگر ہمارے اُس سے معافی مانگنے پر ہمیں معاف کرتا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ سب کو معاف کریں جس نے بھی ہمارے خلاف گناہ کیا ہے کیونکہ ہم تبھی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔

 افسیوں4:32

اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔

یہ ایک چھوٹا سا حوالہ تھا معاف کرنے پر تاکہ ہم معافی پاسکیں۔ احبار 23 میں خداوند کی عیدوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک عید کو یوم کیپور یا یوم کفارہ کہا جاتا ہے۔ عبرانی لفظ "کفار، כּפרKaphar,” کا مطلب ہے "ڈھانکنا، درگزر کرنا، معاف کرنا، کفارہ دینا یا تلافی دینا”۔ اس کے بارے میں تفصیل سے میں پھر کبھی لکھوں گی مگر ابھی تھوڑا سا اسکے بارے میں بیان کر دوں۔ ہر سال عبرانی کیلنڈر کے مطابق خدا نے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا دن منانے کو کہا۔ یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی نظر میں یہ ایک بہت ہی پاک دن ہے۔ اس دن لوگ کوئی کام نہیں کرتے بلکہ روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ ساتھ میں وہ ویسے ہی جیسے یشوعا نے متی 5:23 سے 24 میں کہا،وہ اپنے بھائی/جاننے والوں کی شکایت دور کرتے ہیں اور دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ دن خاص عبادت میں گزارتے ہیں اور یہواہ کا شکر کرتے ہیں۔ آپ احبار 23 میں اس کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں۔

گو کہ عبرانی دعائے ربانی میں "کفار” کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے مگر چونکہ مجھے اس دن کی اہمیت کا علم ہے اس لیے میں آپ کو بتانا چاہتی تھی۔ انسان خدا سے معافی کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے مگر بعد میں قربانی چڑھانے کو حکم دیا گیا تھا۔ یشوعا ہمارے لیے قربانی کا وہ برہ تھا جو ہمارے گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔ اسلیے ہم اسکے نام میں دعا کو ختم کرتے ہیں تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ ہمارے قربانی کے برہ  (یشوعا)کی وجہ سے ہماری سنی گئی ہے۔ اگر ہم توبہ کریں تو خدا مجھے اور آپ کو اپنے بیٹے کے نام میں معاف کرتا ہے ۔

ہم دعائے ربانی پر اپنا باقی مطالعہ جاری رکھیں گے۔ خدا آپ سب کو بہت برکت دے اور آپ کے کلام کے علم میں اور اضافہ کرے۔ آمین




(دعائے ربانی (چھٹہ حصہ

 پچھلی دفعہ ہم نے”روٹی” کی بات کی جس کو عبرانی میں "لخم” کہتے ہیں۔ گو کہ اردو میں بیت لحم نام ہے مگر عبرانی میں بیت لحم کو بیت لخم ہی کہتے ہیں۔ اسرائیل میں کوئی ایک بیت لخم نہیں تھا بہت سے تھے کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں ذخیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ مگر جب یشوعا کی پیدائش کی پیشن گوئی کی گئی تو یہ کہا گیا "بیت لحم یہوداہ”۔

 یوحنا 6:31 سے 58 آیات میں یشوعا نے ساتھ میں "من” کی بھی بات کی جسکا ذکر ہمیں خروج 16 میں ملے گا۔ اگر آپ کو علم ہو کہ من وہ روٹی تھی جو پرانے عہد نامے میں خدا نے بنی اسرائیل کو بیابان میں کھانے کو مہیا کی تھی۔ اور یشوعا نے اپنے بارے میں یوحنا 6 باب یہی کہا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی روٹی ہے جو انسان کو ابدی زندگی بخشتی ہے۔ انگلش میں من کو "مانا” کہا جاتا ہے جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے مگر اسکا عبرانی تلفظ "من ہو” بنتا ہےجسکا مطلب ہے "یہ کیا ہے” کیونکہ جب بنی اسرائیل نے اسکو بیابان میں زمین پر دیکھا تو یہی پوچھا "من” یہ کیا ہے؟

قدیم عبرانی میں "מן ” عبرانی حروف مم اور نون سے لکھا جاتا ہے اور قدیم عبرانی تصویری لکھائی میں ایسے ہے۔ (اگر آپ کو اس سے بہتر لفظ کا علم ہے تو ضرور مجھے بتائیں تاکہ میں وہی استعمال کروں کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ قدیم عبرانی تصویر نما تھی، لیکن اردو میں کیا خاص لفظ اسکے لیے ہے یہ مجھے علم نہیں اسلیے میں تصویری لکھائی استعمال کر رہی ہوں)۔

מ – کا مطلب بنتا ہے "پانی”

ן – کا مطلب بنتا ہے "بیج” (یا اردو زبان میں نسل جیسے کہ پیدائش 3:15 میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

خروج 16 میں من کا ایسا ہی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ زمین پر چھوٹی چھوٹی گول پالے کے دانے کی مانند تھی جو کہ اوس کی بیچ میں تھا۔جب اوس سوکھی تو انکو من نظر آیا۔ جو بنی اسرائیل نے دیکھا اسکو من وعن ویسے ہی قدیم عبرانی زبان میں بیان کیا۔ اگر آپ نے میرا عید فسح کا آرٹیکل جو میں نے افیکومن پر لکھا تھا پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے بے خمیری روٹی کا ذکر کیا تھا اور بیان کیا تھا کہ کیسے عید فسح کی رسم میں "متزا” کا کھانا یشوعا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اب میں آپ کو "متزا” کا قدیم عبرانی میں مطلب بیان کرتی ہوں؛

متزا – מַצָּה

מַ– قوی/طا قتور (یہ مم کا ایک اور معنی ہے)

צָּ – تلاش کرنا یا خواہش کرنا

ה – ظاہر کرنا/دیکھنا

اور اگر میں متزا کا مطلب جملے میں لکھو تو یہ بنے "قوی/طاقتور (جسکی تمہیں) تلاش/خواہش ہے، ظاہر ہوا/دیکھایا گیا۔

من بھی روٹی کے لیے تھا اور متزا بھی۔ من چونکہ آسمان سے اتری تھی مگر متزا  زمین کی روٹی تھی اسلیے من کو عہد کے صندوق میں رکھا گیا تھا۔ مگر من کو خدا نے متزا میں ظاہر کیا مطلب کہ آسمانی روٹی، زمینی روٹی کے طور پر۔ یہواہ – آسمانی باپ، یشوعا- جسمانی وجود میں۔

 کل میں گنتی 11 باب پڑھ رہی تھی۔ خدا نے من بیابان میں اپنے لوگوں کو کھلایا مگر انھوں نے بڑبڑانا شروع کر دیا کہ ہم نے گوشت کھانا، ہمیں مصر کی مچھلی یاد آتی ہے، کھیرے، خربوزے، پیاز اور لہسن۔ وہ بھول گئے تھے کہ مصر میں وہ غلامی میں تھے۔ انکو غلامی کی تکلیفیں بھول گئی تھیں اور جو روٹی خدا انھیں مفت میں کھلا رہا تھا وہ شکر کا باعث نہیں لگتی تھی۔ خدا نے انکو انکے کہنے پر گوشت بھی فراہم کیا مگر ان سے ناراض تھا کیونکہ انھوں نے خداوند خدا کو جو انکے درمیان تھا ترک کیا۔ من کو جو خدا انکو دے رہا تھا۔

 کچھ سال پہلے میرے دل میں پاکستان کی یاد آئی ۔ مجھے یاد ہے کہ میرا دل کیا کہ مونگرے کی سبزی جو امریکہ میں نہیں ملتی وہ کھاوں۔ ان دنوں بھی میں یہی والے حوالے پڑھ رہی تھی ایک دم مجھے خیال آیا کہ کیا میں بنی اسرائیل کی طرح بڑبڑاوں تو خدا کی سزا کے لائق نہ ٹھہروں گی اور کیا میں واقعی خدا کو ترک کرنا چاہتی ہوں؟  زبور 34:8 میں لکھا ہے کہ آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔ اسی آیت کا انگلش میں ترجمہ ایسے ہے "چکھو اور دیکھو کہ خدا بھلا ہے۔” میں نے آزما کر دیکھا تھا کہ خدا اچھا ہے۔ میں نے اسی وقت توبہ کی۔ پچھلے سال جب میں نے سبزیاں اگائیں تو پہلی دفعہ مولی لگانے کا سوچا۔ جب مولی کے پھول نکلے اور انکی پھلی نکلی تو مجھے خیال آیا کہ مونگرے تو مولی کے پودے پر نکلتے ہیں میں تو بالکل بھول گئی تھی۔ میں نے شاید 16 سال کے بعد مونگرے دوبارہ کھائے تھے۔ میں آپ کو یہ باتیں اسلیے بتاتی ہوں کہ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خدا نے مجھے برکت دی ہے تو ٹھیک سوچتے ہیں اور یہی برکتیں وہ آپ کو بھی دینا چاہتا ہے۔ میں تو مونگرے کھانے کا بھول گئی تھی مگر خدا نہیں بھولا تھا J۔ اس نے اپنا آپ مجھے ہر حال میں صاف ظاہر کیا ہے اور اگر کبھی اسرائیلیوں کی طرح آپ نے بھی اس سے پوچھا ہے "یہ کیا ہے؟” تو وہ آپ پر بھی اپنا آپ ظاہر کرے گا۔ اسکو ترک مت کریں۔

اب بات کرتے ہیں "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

یہ وہ جملہ ہے جسکو میں دعائے ربانی بولتے ہوئے نہیں بولنا پسند کرتی تھی J کیونکہ لوقا کی انجیل کے مطابق یہ لکھا ہے "اور ہمارے گناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں۔” میں جب چھوٹی تھی تو میرا دل نہیں کرتا تھا ہر کسی کو معاف کرنے کے لیے اسلیے میرا یہ کہنا کہ میں بھی ہر کسی کو معاف کرتی ہوں خدا کے سامنے ایک جھوٹ؛ کچھ مناسب نہیں لگتا تھا۔ مجھے اس جملے میں یہ شرط نظر آتی تھی "جس طرح”۔ اگر میں دوسروں کے گناہ معاف نہیں کرتی تو میرے بھی گناہ معاف نہیں ہو پائیں گے۔

اسکا تفصیل میں مطالعہ ہم اگلی بار کریں گے۔ جب آپ اس جملے کو بولیں تو ایک بار ضرور سوچیں کہ آپ نے کتنوں کو پورے دل سے معاف کیا ہے۔




(دعائے ربانی (پانچواں حصہ

"تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔”

شاید آپ میری طرح بغیر سوچے سمجھے یہ دعا بچپن سے کرتے آئے ہیں۔ دعا تو ہم یہ کرتے رہے کہ اسکی مرضی پوری ہو مگر اپنی زندگی میں ہم اسکی مطلب کہ  خدا کی نہیں بلکہ اپنی مرضی پوری کرنا چاہتے ہیں اسلئے جب آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہو رہا ہو جو کہ آپ کی اپنی مرضی نہ ہو تو تھوڑا سا وقت نکال کر خدا سے یہ ضرور پوچھیں کہ اگر یہ جو آپ کے ساتھ ہو رہا ہے کیا یہ اسکی مرضی ہے ؟ اور اگراسکی مرضی نہیں تو وہ پھرخود آپ کو اس صورت حال سے نکالے اور اگر یہ اسکی مرضی ہے تو آپ کی خود رہنمائی کرے۔ میں نے جو اپنی زندگی میں سب سے اہم سبق اس بارے میں سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اسکی مرضی میں ہماری بھلائی ہے اور ہماری اپنی مرضی  صرف تکلیفوں   کا باعث بنتی ہے۔

پہلے اسکی مرضی آپ کی اپنی زندگی میں لاگو ہوتی ہے پھر آپ کے خاندان، آپ کے چرچ آپ کے محلے، آپ کے شہر ، آپ کے ملک،  پھر پوری دنیا۔زمین پر اسکی مرضی خاص اسرائیل سے جڑی ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ اسکا کلام جو اسرائیل کے بارے میں  کہتا ہے وہ پورا ہو رہا ہے اور آگے بھی ہوتا آئے گا۔  اسکی مرضی کو زمین پر پوری ہونے کی دعا لازمی ہماری زندگی کا حصہ ہونی چاہیے۔ آج آپ جس ملک میں ہیں، آپ کے خیال میں خدا آپ سے ادھر کیا کروانا چاہتا ہے؟ میں ایک بات ضرور کہہ سکتی ہوں جیسے یرمیاہ 29:7 میں لکھا ہے؛

اور اس شہر کی خیر مناؤ جس میں میں نے تم کو اسیر کروا کر بھیجا ہے اور اسکے لیے خداوند سے دعا کرو کیونکہ اسکی سلامتی میں تمہاری سلامتی ہو گی۔

خدا نے دعا کرنے کا کام آپ کے ذمے لگایا ہے۔ زبور 122:6 میں لکھا ہے؛

یروشلیم کی سلامتی کی دعا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیل کی سلامتی کی دعا مانگنا اپنے ملک کے سربراہوں کے لیے دعا مانگنا یا پھر لوگوں کے لیے،  یہ ہمارا کام ہے۔ اگلی بار جب آپ اپنے لیے دعا مانگیں تو ان باتوں کے لیے بھی دعا مانگیں تاکہ جیسے آسمان پر سلامتی ہے ویسی ہی زمین پر بھی ہو۔

ابتدا میں بھی جب اس نے آدم اور حوا کو بنایا تھا تو وہ ان سے روز بات چیت کرتا تھا۔ اسرائیلیوں کے درمیان بھی سکونت کرنا  یہی اسکی خواہش تھی، روحانی طور پر آپ کے دل میں سکونت کرنے کی خواہش بھی خدا رکھتا ہے  اور آنے والے ہزار سالوں میں وہ پھر سے اپنے لوگوں کے ساتھ سکونت کرے گا۔

اب بات کرتے ہیں "ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔”

ابھی تک ہم صرف یشوعا کی سکھائی دعا پر ہی بات کر رہیں ہیں۔ ہم نے دعائے ربانی کے پہلے حصہ میں پیش سانچے کے مطابق صرف دو باتوں پر تفصیل میں نظر ڈالی تھی پہلی۔۔۔ حمد وتعریف اور دوسری۔۔۔ بحالی۔ یشوعا کا اپنے شاگردوں کو اسطرح دعا کرنے کو سکھانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ دھیان میں رکھیں کہ کونسی باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اب میری دعا کے سانچے کے مطابق ہم بات کرتے ہیں "گزارش” پر۔ اگر آپ کو علم نہیں کہ میں کیا بات کر رہی ہوں تو دعائے ربانی کا پہلا حصہ پڑھیں آپ کو سمجھ آ جائے گی۔

یشوعا نے دعا میں سکھایا کہ تمہاری ضرورت بہت سی باتوں کی نہیں بلکہ ایک لائن کی ہے "ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔بہت خوب خدایا!!! تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی باقی چیزوں کی گزارش نہ کروں؟  دعائے ربانی کو سکھانے سے پہلے یشوعا نے کہا؛ متی 6:8

پس انکی مانند نہ بنو کیونکہ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کن کن چیزوں کے محتاج ہو۔

کن کی مانند نہ بنو؟ آپ متی کا 6 باب خود پڑھیں۔ یشوعا بات کر رہا تھا کہ ہم غیر قوموں کی طرح بک بک مت کریں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے بہت بولنے کے سبب سے انکی سنی جائے گی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ دو سال پہلے جب میرے ٹرک (پاکستانی ٹرک کی طرح نہیں  ) کے ایک ٹائر سے ہوا لیک ہونا شروع ہوئی۔ پہلے دن میں نے اسکے ٹائر میں ہوا بھروائی۔ اگلے دن جب میں گاڑی چلا رہی تھی پھر ٹائر میں ہوا کم ہونے کا سگنل آیا میں مکینک کے پاس گاڑی لے کر گئی اس نے ٹائر چیک کیے اور کہا کہ چونکہ آج کی گاڑیاں کمیوٹرازڈ ہیں اسلیے یہ سگنل آیا ہےکیونکہ ٹائر میں ہوا کچھ زیادہ ہے لہذا اس نے تھوڑی ہوا کم کر دی۔ جب میں گھر جا رہی تھی پھر سے سگنل آیا۔ اگلے دن میرے شوہر گاڑی ایک دوسرے مکینک کے پاس لے گئے۔ اس نے کہا کوئی خرابی نہیں جب وہ گھر واپس آ رہے تھے پھر سے ٹائر میں ہوا کم ہو گئی۔ میں نے ڈیلر کو فون کیا اور اگلے دن کا ٹائم لیا۔ انھوں نے کہا کہ ٹائر کے سنسر کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے لہذا سنسر نیا لگانا ہے۔ سنسر بدلوانے کے بعد جب میں اپنے گھر جو ڈیڑھ گھنٹا دور تھا واپس پہنچی تو ٹائر کی ہوا کچھ گھنٹوں کے بعد پھر کم ہوگئی میں نے پھر ڈیلر کو کال کی اور اگلے دن پھر ڈیلر کے پاس پہنچ گئی۔ انھوں نے کافی کوشش کی کہ پتہ چلے کہ آخر کیا وجہ ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر میں اس مکینک نے میرے سے پوچھا کہ میں گاڑی گھر کے باہر پارک کرتی ہوں۔ میں نے کہا "جی” اس نے کہا مجھے شک ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ مذاق کر رہا ہے اور ٹائر کی ہوا کم کر دیتا ہے گو کہ مجھے یقین نہیں تھا مگر اس نے کہا کہ وہ ٹائر کے ہوا بھرنے کے منہ پر پینٹ کی ایک قطار لگا دیگا اور جب کوئی ہوا کم کرے گا تو ہمیں علم ہو جائے گا کہ کسی نے ہوا نکالنے کے لیے والو کو کھولا ہے۔ گھر واپس آکر میں نے گاڑی گیراج میں کھڑی کی تاکہ اگر کوئی اس قسم کی حرکت کر رہا ہے تو کر نہ پائے۔ اگلی صبح جب میں نے گیراج کا دروازہ کھولا تو پتہ چلا کہ ہوا پھر کم ہے۔ میں نے دوبارہ ڈیلر کو فون کر کے اگلے دن کا ٹائم لیا۔ اس دن میرے پاس ویسے ہی باہر کےبہت کام تھے جو میں اتنے دنوں سے گاڑی کے چکروں میں کر نہیں پائی۔ اس دوران میری ایک دوست نےمجھے کال کی۔ جب میں اسکو اپنے ساتھ گاڑی کا واقع بتا رہی تھی اس نے کہا کہ میں چونکہ بہت زیادہ ڈیمانڈ کرنے والوں میں سے نہیں اسلیے ڈیلر اس بات کو اتنا خاص نہیں لے رہے۔ اس نے کہا کہ میں ان لوگوں سے ڈیمانڈ کروں اور تھوڑا سختی سے پیش آؤں اور انھیں کچھ باتیں سناؤں تاکہ وہ جلد اس مسلئے کو حل کر سکیں ۔ میں نے کہا میں نے خدا سے دعا کی ہے اور خدا خود آج اس مسلے کو حل کرے گا کیونکہ  زیادہ "بک بک” کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ جب میں ڈیلر کے پاس پہنچی تو میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی انھوں نے مجھے ایک دوسری گاڑی میرے استعمال کے لیے دی۔ انھوں نے کہا کہ جب تک وہ اس مسلے کو حل نہیں کر لیتے وہ گاڑی پر کام کریں گے۔ مجھے ان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مالک نے خود کہا کہ وہ شرمندہ ہیں کہ میں اتنی دور سے کتنے دنوں سے آرہی ہوں۔ اس دن انھیں ٹائر میں ایک سوئی کی نوک جتنا سوراخ مل گیا تھا جسکو ٹھیک کرنے کے بعد مجھے دوبارہ کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

اپنی زبان کا صحیح استعمال؛ یہ خدا ہمیں سکھا رہا ہے۔ میں اپنے بچوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھتی ہوں، ہاں اگر انھیں کوئی سکول سے مطلق یا پھر کسی ایسی چیز جو وہ خود خریدنا چاہتے ہیں، میرے سے مانگنی پڑتی ہیں۔ یہاں پر تو پھر خدا کی بات ہو رہی ہے جو سب کچھ دیکھتا ہے اور جانتا ہے۔ اپنی ضروریات مانگنے کے لیے وہ ہمیں روکتا نہیں مگر بتانا چاہتا ہے کہ ہماری فرمائشوں کی لسٹ زیادہ لمبی نہیں ہونی چاہیے۔

ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے؛ یشوعا نے کل اور پرسوں کے لیے بھی دعا کرنے کو نہیں زور دیا بلکہ صرف "آج” کی روٹی مانگنے کو کہا۔ اگر وہ آپ کو آج روٹی میسر کر رہا ہے تو کل اور پرسوں کیوں نہیں کرے گا۔ صرف آج کی روٹی (ضرورت) کے لیے دعا مانگیں۔  روٹی کلام کے مطابق نہ صرف جسمانی خوراک ہے بلکہ روحانی خوراک کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔  عشائے ربانی لیتے ہوئے ہم جب روٹی لیتے ہیں تو اسکا مطلب ہم روحانیت میں بھی اسکے ساتھ شامل ہو رہے ہیں کیونکہ اسی نے لوقا 22:19 میں کہا ” یہ میرا بدن ہے جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔” یوحنا کے 6باب کی 35، اور 48 سے 51 آیات میں یشوعا نے کہا؛

زندگی کی روٹی میں ہوں جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بھوکا نہ ہوگا۔۔۔۔۔یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اترتی ہے تاکہ آدمی اس میں سے کھائے اور نہ مرے۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی اس روٹی کو کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی میں جہان کی زندگی کے لیے دونگا وہ میرا گوشت ہے۔

اس نے اپنا بدن ہمارے لیے دیا کہ ہم اس آسمانی روٹی کو کھائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں۔ وہی ہے جو نہ صرف جسمانی روٹی مہیا کرتا ہے بلکہ روحانی روٹی بھی دیتا ہے۔

دعائے ربانی کا یونانی ترجمہ "آج” ہمیں دے، کہتا ہے مگر اسی دعا کا یہی عبرانی ترجمہ "متواتر” ہمیں دے  بنتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ جسمانی روٹی صرف ایک بار نہیں چاہیے ہوتی بلکہ اسکی متواتر ضرورت رہتی ہے اسی طرح روحانی روٹی کی بھی متواتر ضرورت پڑتی ہے۔ استثنا 8:3 آیت میں ایسے بیان ہے؛

اور اس نے تجھ کو عاجز کیا بھی اور تجھ کو بھوکا ہونے دیا اور وہ من جسے نہ تو نہ تیرے باپ دادا جانتے تھے تجھ کو کھلایا تاکہ تجھ کو سکھائے کہ انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہتا ہے۔

وہ ہمیں اسلئے عاجز بناتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اسکی ضرورت کو سمجھ سکیں۔ عبرانی میں روٹی کو” لخم، לחמle-chem ” کہتے ہیں۔ یشوعا کی پیدائش "بیت لحم” میں ہوئی۔ بیت کا مطلب ہے "گھر” اور "عبرانی میں لحم/لخم کا مطلب ہے "روٹی” بیت لحم کا پورا لفظی مطلب بنا "روٹی کا گھر”۔ ایک اور بات جو میں بیان کرنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ عبرانی لفظ "لخم” عبرانی لفظ "لخام” سے نکلا ہے جسکا ایک مطلب ہے "جستجو”۔ جب خدا نے پیدائش 3:19 میں آدم کو کہا "تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائےگا۔۔۔۔۔” جستجو! کھیتی کی اور آٹا گوندھ کے روٹی بنانے کی۔

جو بات میں اس سے متعلق نہیں لکھ رہی میری دعا ہے کہ خدا آپ کو خود ان باتوں کے حوالے سے آپ کے دل میں ڈالے۔ میں اسکو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ میری طرح آپ بھی سمجھ پائیں "کہ انسان صرف روٹی سے نہ جیتا رہے گا۔۔۔۔۔”




(دعائے ربانی (چوتھا حصہ

پچھلی بار  ہم نے "تیری بادشاہی آئے” یونانی ترجمے کے مطابق بات کی تھی۔ شیم-توؤ کی عبرانی متی کے مطابق یہی جملے کا اردو میں ایسے ترجمہ کیا جائے گا "تیری بادشاہی بابرکت/مبارک ہو۔” میں نے عبرانی لفظ ” Baruch، باروخ” کا اردو کلام میں ترجمہ دیکھا تھا کہ اس لفظ کو اردو میں "مبارک” لکھا گیا ہے۔ جیسے زبور 118:26 میں لکھا؛

مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔ ہم نے تمکوخداوند کے گھرسے دعا دی ہے۔

اور یشوعا نے متی 23:39 میں کہا؛

کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھوگے جب تک نہ کہوگے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔

گو کہ علما کرام یہ بتاتے ہیں کہ متی کی انجیل یونانی میں لکھی گئی مگر جارج ہاورڈ کی تفتیش کے مطابق متی کی انجیل کے کچھ عبرانی متن ملے اور رومن کیتھولک چرچ نے بھی یہی کہا کہ انھوں نے متی کی انجیل کا ترجمہ یونانی میں اپنی قابلیت کے مطابق کیا۔ اگر ہم یونانی ترجمے کے مطابق اسکی بادشاہت آنے کی دعا کرتے ہیں تو تب بھی کلام کے مطابق غلط نہیں اور اگر ہم عبرانی کلام کے مطابق دعا کریں کہ "تیری بادشاہت مبارک ہو” تو تب بھی صحیح ہے کیونکہ اسکی بادشاہت جلد آنے والی ہے۔ یشوعا کے مطابق ہمیں کہنے کی ضرورت ہے "مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔”  اگر آپ اسکی بادشاہت کے منتظر ہیں تو میری طرح کہہ سکتے ہیں "مبارک ہے وہ جو یہواہ کے نام میں آتا ہے۔” گو کہ میں اس پر اور بھی بات کرنا چاہتی ہوں مگر جب ہم انبیا کے متعلق پڑھیں گے تو ہم اس پر تب بات کریں گے۔

اب ہم بات کرتے ہیں "تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔”

میرے سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا کی مرضی ہمارے لیا کیا ہے؟ آپ کو میرے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کی مرضی آپ کے لیے کیا ہے۔ خدا نے اپنا کلام آپ کو دیا ہے آپ کی رہنمائی کے لیے تاکہ آپ جان سکیں کہ اسکی مرضی آپ کے لیے کیا ہے یوحنا 1:1  اور 14میں ایسے کہا گیا ہے۔

ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کلام نہیں پڑھتے تو آپ کو خدا کا نہیں پتا اور اگر آپ کو خدا کو نہیں پتا تو آپ کو اسکی مرضی کیسے پتہ چل سکتی ہے؟ خدا کی مرضی آپ کے لیے زمین پر بھی ویسی ہی ہے جیسی آسمان پر۔ 3 یوحنا 1:2 میں لکھا ہے

ائے پیارے! میں یہ دعا کرتا ہوں کہ جس طرح تو روحانی ترقی کر رہا ہے اسی طرح تو سب باتوں میں ترقی کرے اور تندرست رہے۔

آپ نے کتنی روحانی ترقی پائی ہے؟ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اسکے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں (یوحنا 4:24)۔ کوئی کیسے روح اور سچائی سے پرستش کر سکتا ہے؟ آپ نے شاید نیکدیمس اور یشوعا کے بارے میں پڑھا ہو (یوحنا 3) جس میں یشوعا نے اس سے کہا "جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اسکا نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے ” آپ نے شاید پادریوں کو کہتے سنا ہو کہ اسکا مطلب پانی اور روح کا بپتسمہ ہے، وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ جب آپ سچے دل سے توبہ کر کے خدا پر ایمان لاتے ہیں تو پانی اور روح کا بپتسمہ حاصل کرنا لازمی بن جاتا ہے۔ روح کا بپتسمہ،  روح القدس دیتا ہے۔ جیسے حزقی ایل 36:27 میں ہے؛

اور میں اپنی روح تمہارے باطن میں ڈالونگا اور تم سے اپنے آئین کی پیروی کراونگا اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے اور انکو بجا لاؤ گے۔

یشوعا نے اپنے شاگردوں کو کہا یوحنا 16:13 میں؛

لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئیگا تو تمکو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہیگا لیکن جو کچھ سنیگا وہی کہیگا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔

اور 1 کرنتھیوں 2:9 سے 13 آیات میں لکھا ہے:

بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہوا کہ "جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں۔ وہ سب خدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے کئے تیار کردیں۔ لیکن ہم پر خدا نے انکو روح کے وسیلے سے ظاہر کیا کیونکہ روح سب باتیں بلکہ خدا کی تہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم نے نہ دنیا کی روح  بلکہ وہ روح پایا ہے جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ ان باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔

 اگر آپ نے روح کا بپتسمہ حاصل کیا ہے تو خدا خود اپنی بھید کی باتیں آپ پر ظاہر کرے گا۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ اسکی مرضی آپ کے لیے زمین پر کیا ہے، وہ آپ پر اپنا کلام اور واضع کرے گا کیونکہ زکریا 4:6 میں ہے کہ نہ تو زور سے نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے رب الافواج فرماتا ہے۔ اگر یشوعا ہمارے لیے آسمان پر جگہ تیار کر رہا ہے، اگر اسکی مرضی ہمارے لیے آسمان پر اچھی ہے تو کیا اسکی مرضی ہمارے لیے زمین پر برائی کی ہو سکتی ہے۔ خدا نے ہمیں اپنی اولاد کہا ہے اور جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں (رومیوں 8:14) اب ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جو کہیں وہ آپ کو مل جانا چاہیے۔ 1 یوحنا  5:14  اور 15میں لکھا ہے؛

اور ہمیں جو اسکے سامنے دلیری ہے اسکا سبب یہ ہے کہ اگر اسکی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔ اور جب ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہماری سنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اس سے مانگا ہے وہ پایا ہے۔

ہمیں اپنے لیے زمین پر اسکی مرضی کے مطابق مانگنا ہے کیونکہ ہماری ضرورت کی چیزیں تو وہ ہمیں ہمارے کہے بغیر بھی مہیا کر دیتا ہے۔ ضرورت۔۔۔۔۔۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ میرا بڑا بیٹا جس کو مختلف کھانے کھانے کا شوق ہے ایک دن مجھے کہا "مام ہمیں اس ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے کی ضرورت ہے” میں نے اسے کہا نہیں ضرورت نہیں بلکہ ایسا کہو کہ آپ ادھر کھانا کھانا چاہتے ہو۔ اس نے ہنس کر کہا "جی”۔

میرے بیٹے کی طرح ہم بھی بہت سی چیزوں کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ خدا نے مجھے اور آپ کو ہماری ضرورت سے بڑھ کر دیا ہے۔ میں نے یہ اہم سبق تب سیکھا جب کچھ سال پہلے میں اپاہج لوگوں کی بلڈنگ میں بائبل سٹدی کروانے جاتی تھی۔ اس بلڈنگ کے تمام اپارٹمنٹس صرف اپاہج لوگوں کے لیے تھے۔ میں نے وہاں کب اور کیسے بائبل سٹدی کروانی شروع کی اسکے بارے میں پھر کبھی بتاؤں گی۔ چونکہ تمام لوگ جو بائبل سٹدی کرنے کے لیے آتے تھے کسی نا کسی وجہ سے اپاہج تھے اسلیے انکو بائبل سٹدی کروانا میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے ایک دو سال پہلے ہی اپنا کاروبار اور گھر کھوئے تھے اور کرایہ کے تین بیڈروم اپارٹمنٹ میں رہ رہے تھے۔ میں اکثر خدا سے گلہ کرتی تھی کہ ہم اتنے امیر نہیں رہے، ہمارے پاس وافر مقدار میں پیسہ نہیں رہا۔ میرے شوہر کی تنخواہ اتنی تھی کہ ہمارا گزارا چل رہا تھا مگر پھر بھی ایسے لگتا تھا کہ خدا کی برکت نہیں رہی تھی۔ تب میں نے سوچا نہیں تھا کہ خدا مجھے کیا اہم سبق سکھا رہا تھا۔ ایک دن میں جب بائبل سٹدی جب ختم کر رہی تھی ایک بندہ جو کہ اپنی موٹر والی وہیل چیر پر تھا، دوسروں سے مدد مانگنے آیا۔ اس نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا اور اپنی جیکٹ  پہننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بول نہیں سکتا تھا۔ اسکا ایک بازو جیکٹ میں تھا اور دوسرا آدھا باہر تھا۔ پہلے ایک شخص نے اسکی مدد کرنے کی کوشش کی کہ اسکا آدھا ہاتھ پورا آستین میں اندر چلا جائے مگر نہیں کر پایا۔ پھر ایک عورت اٹھی کہ اسکی مدد کرے مگر کوشش کے باوجود اسکا ہاتھ جیکٹ کی آستین میں سیدھا نہ کر سکی۔ میں اپنی بائبل بیگ میں ڈال رہی تھی جب اتنے لوگوں کو میں نے اسکی ناکام مدد کرتے دیکھا تو سوچا کہ میں مدد کروں اور دیکھوں کہ مسلہ کیا ہے۔ جیسے میں اسکے قریب گئی اسکے جسم کی بدبو سے ایسا لگا کہ اسے کسی نے کافی دنوں سے نہیں نہلایا تھا اور کپڑے بھی ویسے ہی بدبودار تھے۔ وہ اپاہج ہونے کی وجہ سے خود  سے نہ تو نہا سکتا تھا نہ کپڑے بدل سکتا تھا۔ جب میں نے اسکا بازو دیکھا تو سمجھ آئی کہ اسکے گلے کی چین اسکے کپڑے میں بازو کے ساتھ پھنسی تھی جو کہ بازو سیدھا نہیں کرنے دے رہی تھی۔ میں نے اسکا بازو نکال کر اسکو جیکٹ ٹھیک طریقے سے پہنائی۔ جب میں باہر نکل کر اپنی گاڑی میں گھر جانے کے لیے بیٹھی تو اپنے آنسو روک نہ سکی۔ کیونکہ مجھے خیال آ رہا تھا کہ میرے ڈریسر پر کم سے کم 30-35 پرفیوم کی بوتلیں تھیں۔ شاید آپ کو لگ رہا ہو کہ میں کچھ زیادہ بتا رہی ہوں۔ مگر نہیں میں نے اپنی یاد گاری کے لیے تصویر لی تھی کہ میری غربت کے(میری نظر میں)  دنوں میں بھی خدا نے مجھے کتنی برکت دی ہوئی تھی۔ مجھے رونا اسلیے آ رہا تھا کہ ایک وہ شخص تھا جو کہ خود سے اپنے آپ کو صاف بھی نہیں کر سکتا تھا اور ایک میں تھی جس کے پاس اتنا ہونے کے باوجود صرف خدا کے لیے شکایت ہی تھی۔  گو کہ اگلی دفعہ جب میں وہاں بائبل سٹدی کے لیے گئی تو میں ان لوگوں کے لیے صابن، لوشن، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ بھی لے کے گئی پر میں نے اپنی پرفیوم کی بہت سی بوتلیں بھی دے ڈالی کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ میری ضرورت سے بڑھ کر ہے۔

خدا میری زندگی میں دوبارہ سے ان چیزوں کی بحالی بھی لایا ہے مگر اب مجھے ان چیزوں سے زیادہ خدا کی بادشاہت کی بحالی کا زیادہ خیال ہے۔ آپ نے اگردعائے ربانی کا پچھلا مطالعہ پڑھا تھا تو آپ کو یاد ہو میں نے متی 6:33 کا حوالہ لکھا تھا "پہلے تم اسکی بادشاہی اور اسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ ساری چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔” آپ  آج کس دولت کی تلاش میں ہیں۔

  خدا آپ سب کو بہت برکت دے۔ آمین